پنجابی،اردو اور ایگریـن ۔۔۔۔ سبین علی
Penslips Weekly Magazine Issue # 100
پنجابی اردو اور ایگرین
سبین علی
میں اپنے بچوں کو انگریزی پڑھاتی ہوں، اردو مین بات کرتی ہوں اور پنجابی میں ڈانٹتی ہوں.پنجابی میں ڈانٹنے کے کئی فوائد ہیں. ایک تو اس طرح بچے اپنی مادری زبان سے نابلد نہ رہیں گے دوسرے دباڑا پنجابی میں کچھ زیادہ زور سے لگتا ہے اردو کی نستعلیق ڈانٹ اس عہد کے فطین بچوں پر یوں بھی کارگر نہیں. صرف یہی نہیں مستقبل میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ میرے گزرنے کے بعد پنجابی انہیں ہمیشہ ماں کی یاد دلائے گی.
پنجابی بولنا آؤٹ آف فیشن ہے اگر آپ کے بچے کسی محفل میں نیم اردو نما انگریزی میں گفتگو کرتے رہیں تو ویل مینرڈ ہیں.مگر جہاں ایک لفظ پنجابی کا بولا تو سمجھیے کہ آپ کی سب تربیت اکارت گئی.
یہ سب جانتے ہوئے بھی میں پنجابی بولنے سے تائب نہیں ہو رہی. کی کراں ایگرین تو ہوتے ہی پنجابی اور پینڈو ہیں. زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے متعلق کئی ضرب الامثال زبان ذد عام ہیں کہ یہاں کے اساتذہ آدھا لیکچر انگریزی اور آدھا پنجابی میں دیتے ہیں.
پچھلی صدی کے نصف آخر میں ہمارے بیشتر پروفیسرز جو سکولوں میں گاچی لگا لگا کر تختیاں پوچتے تھے امریکہ اور برطانیہ کی جامعات سے ڈاکٹریٹ لیول کی ڈگریاں حاصل کر چکے تھے. تب شاید تعلیم نے ایک کاروبار کی شکل اختیار نہیں کی تھی اس لیے گاؤں سے منسلک زرعی سائینس دانوں کا لیکچر کچھ اس طرز کا ہوتا
“ٹیک اے مٹھ آف مٹی اینڈ کُٹ اِٹ. دھین تھرو اِٹ آن دا گراؤنڈ. اِ ف اِٹ سپریڈ. اِٹ اِز وتر.”
یہیں پر بس نہیں تھا بلکہ ایکسٹینشن ایجوکیشن کے نام پر باقاعدہ سیمنار بھی پنجابی میں منعقد کیے جاتے تاکہ صرف خاص نہیں بلکہ عام پینڈو بھی جامعہ سے مستفید ہوسکیں.
پنجابی ان اساتذہ کے رگ و ریشے میں پیوستہ اگلی نسلوں سے امید بہار لگائے بیٹھی تھی.
اس لیے ہم نے ان کی امیدوں پر کبھی پانی نہہں پھیرا. پنجابی کو اپنے انگریزی اوور کوٹ کے نیچے بحفاظت چھپا کر رکھا. ہائے ربا، ہاہ ہائے ایہہ کی کیتا، مینوں نئیں پتا جیسے الفاظ تو تکیہ کلام بن چکے تھے. باقی ماندہ فقرات میں بھی جا بجا پنجابی تڑکا ہمارے معمولات میں شامل ہوچکا تھا.
بی ایس سی میں دو کریڈٹ آورز کا انگریزی کورس محمد یونس صاحب پڑھاتے تھے. ہر کلاس میں وہ پہلا انگریزی لیکچر دیتے ہوئے انتہائی دلدوز انداز اور شستہ اردو میں اپنی محبوب بیوی کے ارتحال کا واقعہ سناتے. آہیں بھر کر کہتے کہ کس طرح اس سانحے کے بعد انہوں نے شاعری شروع کی اور اپنی ایک پرانی غزل جو کئی صدیوں سے ہر کلاس کے پہلے لیکچر میں سنائی جا رہی ہے دہراتے.
“کتنے سورج آس وفا کے شام ہوئی تو ڈوب گئے
چاند تھے کتنے آشاؤں کے اکثر جو گہنائے ہیں”
اور ان کے جانے کے بعد ہماری ساری کلاس لہک لہک کر وہی غزل دہراتی. اگلے کئی سال تک ہم اپنے جونئیرز سے یہ دریافت کرتے رہے کہ آیا انگریزی پیریڈ میں کسی نئے کلام کی آمد ہوئی یا نہیں. مگر ہنوز غزل دور است والا معاملہ ہی رہا.
لہذا کتنے سورج آس وفا کے شام ہوئی تو ڈوب گئے…… لہک لہک کر گانا سیشن در سیشن چلتا رہا. محمد یونس صاحب کشت نو کے ایڈیٹر بھی تھے.بہت مصروف رہتے اس غزل کے علاوہ مزید کوئی لیکچر نما کلام نہ ہوا بس نوٹس ملے اور شاید اس با برکت غزل کی تسبیح کی بدولت ساری کلاس کا اے گریڈ بھی آ گیا تھا.
رب دی سونھ مجھے لگتا ہے کہ کسی دن مجھے یونس صاحب کی شاعرانہ بد دعا لگ گئی تھی جو آج مجھ پر شاعری کرنے کا ناگہانی الزام عائد ہوا جاتا ہے. حالانکہ میرا یہ نظم نما خطا کرنے کا ارادہ کبھی نہ تھا.
ایگرین لڑکیاں اگرچہ پنجابی بولنا مناسب نہیں سمجھتیں مگر آخر کب تک پانچ برسوں میں پنجابی کی روانی اور شستگی میں اتنا اضافہ ہوچکا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی منہ سے ایسے پھسلتی ہے جیسے گاچنی والی زمین پر بارش کے بعد اٹھکیلیاں کرتے بچے تلکتے ہیں.
مجھے اس تلکتی پنجابی کا بارہا خمیازہ بھگتا پڑا.مگر میں نے کمال ڈھٹائی سے اپنی سسرال میں ملا پینڈو کا خطاب کسی فوجی جوان کے ستاروں کی مانند اپنے کندھوں پر ٹانک لیا.
لاہور میں عام بول چال کی پنجابی اب انگریزی سے اتنی آلودہ ہو چکی ہے جتنا راوی کا پانی. َلڑکیاں تو پنجابی بالکل نہیں بولتیں ہاں لڑکے سگریٹ نوشی کی طرح یہ شغل بھی فرما لیتے ہیں. کسی بڑی عمر کی خاتون سے بھی آپ پنجابی میں بات نہیں کر سکتے. اسے وہ کئی طرح سے اپنی توہین سمجھیں گی. اب وہ اتنی بھی بزرگ نہیں کہ ان سے اس طرز کی گفتگو کی جائے. اور اگر کسی دوکاندار سے آپ پنجابی میں بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کریں تو ہوسکتا ہے وہ آپ کو خریدار بنانا ہی پسند نہ کرے.
دو سیلز مین آپس میں پنجابی میں بات کر رہے تھے. کہ میری فطرت میں موجود رگ پنجابی پھڑک اٹھی اور میں نے سیلز مین سے کہا
“پائی جی ذرا اوہ والا شموز سلک دا سوٹ وخانا”
یہ سن کر سیلز مین نے سر سے پاؤں تک مجھے حیرت سے دیکھا پھر پوچھنے لگا کیا آپ کچھ پڑھی لکھی بھی ہیں یا چٹی ان پڑھ ہیں؟
میں نے دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے پوچھا کیوں جناب کچھ غلط کہہ دیا کیا؟
اس نے جواب دیا باجی …ج ی ی پنجابی میں تو کوئی ان پڑھ لڑکی یا ماسی بھی گل نہیں کرتی.
میرے ساتھ بیٹھی سسرالی رشتہ دار خاتون مارے شرمندگی کے پانی پانی ہو گئی اور فورا بولی نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہماری بھابھی ہائیلی ایجوکیٹیڈ ہیں.
جس کی فوری تردید ضروری سمجھتے ہوئے میں نے بیان داغا ” نہ پائی جی میں بس تھوڑا جیہا ای پڑھی آں…… ہلی لخنا نئیں آندا “
اسی پر بس نہیں تھا. میری شرمساریوں کے سلسلے چلتے رہے ایک دن ڈور بیل پر گیٹ کھولا. سامنے دو لڑکیاں کھڑی تھیں. ہائی ہیل پہنے نک سک سے تیار .بڑی نفاست سے مسکارا اور آئی لائینر لگا کر آنکھوں کو سموکی ٹچ دیا تھا. دوپٹا بالوں کے کلپ میں اٹکا ہوا جدید تراش خراش کا سوٹ پہنے ہوئے تھیں. چڑیلوں جتنے لمبے ناخنوں پر سرخ نیل پالش جمی ہوئی تھی. ہم شکل سی بہنیں لگ رہی تھیں. انجان چہرے دیکھ کر میں ٹھٹھک گئی کہ جانے کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں؟ پھر حتی المقدور اپنی اردو نکھارتے ہوئے پوچھا.
جی فرمایے آپ کو کس سے ملنا ہے اور کہاں سے تشریف لائی ہیں.
اس پر دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا.
تھوڑا مسکرائیں.
میں کنفیوز کھڑی تھی.
میرے تاثرات کا خوب مزہ لے چکنے کے بعد ایک لڑکی کہنے لگی.
باجی ی ی ی …. کوڑا دے دیو
اسی صغراں دیاں کڑیاں آں
میں نے اپنا سر پیٹ لیا، ہائے ربا ایہہ کڑیاں لاہور دیاں.