سیلمون فش ۔۔۔ سبین علی

سیلمون فش

سبین علی

جو ، آج بہت پریشان تھی۔ جب وہ مادام کے چہرے اور گردن پرنرمی سے مساج کر رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں تھکن کے آثار اور ماتھے پر تفکر کی گہری لکیریں تھیں۔ یہ کوئی ایسی انہونی بات تو نہیں۔ یہاں ہر غیر ملکی ورکر کے چہرے پر تھکن اور آنھوں میں منجمد سی اداسی نظر آتی ہے۔  

مگر جو میری ہم وطن اور آجکل واحد سہیلی ہے۔ میں اسے پچھلے ایک سال سے جانتی ہوں ۔ مادام کچھ عرصے سے اس سیلون سے خدمات لے رہی ہیں ۔ ان کے ساتھ اکثر وہاں جاتے میری جو سے اچھی شناسائی  ہو چکی ہے۔

جو اور اس جیسے کئی اجنبی ملازمین (ہم غیر ملکیوں کو یہاں اجنبی کہا جاتا ہے ) کی پریشانیاں دیکھ کر میں خداوند کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے سپانسرز بہت اچھے لوگ ہیں ۔ مادام اپنے ساتھ شاپنگ پر لے جاتی ہیں تو کبھی کبھار میرے لیے بھی اچھے کپڑے اور آرام دہ جوتے بھی خرید لیتی ہیں۔ نیا فون خریدنے پر کئی بار اپنا پرانا مگر قیمتی سیل فون مجھے دے دیتی ہیں۔ سال میں چند بار کسی اچھے ہوئی سیلون سے میری ہیئر کٹنگ بھی کروا دیتی ہیں۔

تیرہ اگست

مادام کو لمبے بال بالکل پسند نہیں اور یہ بھی پسند نہیں کہ کبھی کوئی بال کھانے سے برآمد ہو، اس لیے میرے بال ہمیشہ بہت مختصر ہوتے ہیں۔ حالانکہ مجھے لمبے اور سیدھے بال بہت پسند ہیں۔

مگر اپنی پسند کے کپڑے ، بال یا اسٹائل تو مدتوں سے ایک خواب بن چکے ہیں۔ لیکن دوسروں کے حالات سن کر میں ہر بار خود کو تسلی دیتی ہوں۔ ان بیس برسوں میں مجھے کبھی جسمانی تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو اکثر گھریلو خادمایئں کنٹریکٹ کے ساتھ مقدر سمجھ کر قبول کرتی ہیں۔ تنخواہ بھی دیر سویر سے مل ہی جاتی ہے۔ میں اپنی ملازمت سے بڑی مطمئن ہوں مگر جو کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔ وہ ہر وقت پریشان اور اندیشوں میں گھری رہتی ہے۔

بیس ستمبر

آج کا دن پھر بہت بوجھل سا تھا۔ وطن میں کہیں کھو چکے پرانے رشتے دار بہت یاد آ رہے تھے۔ آج جو بھی الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ مادام کا گاون سنبھالتے ہوئے میں اس سے اپنی مقامی زبان میں پوچھا، کیا پریشانی لاحق ہے۔ تو کہنے لگی۔

کیا بتاؤں سیسی ا مادام کسی صورت میری تنخواہ بارہ سو سے بڑھانے پر راضی نہیں۔ مجھ سے وطن میں دو ہزار کا معاہدہ کیا گیا تھامگر جب یہاں آئی تو ما دام نے کہا تم تجربہ کار نہیں ہو۔ حالانکہ تب میں وہاں ملٹی نیشنل سیلون میں ملازمت کر رہی تھی ۔ بڑی مہارت سے دائرے کی شکل میں پھسلتی ویکس بال گھمائی اس کی انگلیاں دیکھ کر میں نے کہا۔

“یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ تمہیں بھلا کس کام کا تجربہ نہیں ؟“

مادام کہتی کہ تمہیں کئی بیوٹی ٹریٹمنٹس ٹھیک سے کرنا نہیں آتے ۔ کسٹمرز تمہارے کام سے مطمئن

نہیں ہوتے ۔ سیدھی سادی کننگ کرتی ہو ۔ جدید انداز کا آئی میک اور تمہیں نہیں آتا اور جانے کیا کچھ کہتی رہتی ہیں۔ ان کی زبان کی پوری سمجھ آتی ہے نہ بات کی کئی بار پاسپورٹ واپس مانگا کہ اس سے زیادہ تنخواہ تو مجھے اپنے وطن میں مل رہی تھی مگر وہ اس پر بھی تیار نہیں ۔“

“پیچھے وطن میں تمہارے بچے تو نہیں؟“ میں نے پھر ذہن میں امڈ آئے ماضی کا خیال جھٹکتے

ہوئے اس سے پوچھا۔

پانچ بچے ہیں تین پہلے شوہر ے اور دو دوسرے سے اوپر سے شوہر بھی بیمار۔ اس

کی شوگر بگڑ چکی ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کسی مصیبت میں پھنس گئی ہوں ۔ بچوں سے دور مشقت اٹھا کر بھی نہ پیسے مناسب ملتے ہیں اور نہ ہی کنٹریکٹ ختم ہونے سے قبل واپس جاسکتی ہوں ۔ مگر دیکھو وہ میریسا میرے ساتھ ہی آئی تھی اس کی کتنی جلد ترقی ہوئی اب اس کا شمارسینئرزمیں ہوتا ہے ۔

چار اکتوبر

جو کا فیس بک پر پیغام آیا تھا۔ میرسیا کو کی کسٹمر کی جانب سے شدید جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے ہونٹ پھٹے ہوئے ، چہرہ داغدار اور جسم پر جا بجا نیلے نشانات تھے ۔ کل ہی مالک

کے تشدد سے بنگلہ ویشی ملازمہ کے قتل کی پوری کہانی بھی اخبارات میں آئی۔ وہ کئی ماہ تک اپنے مالک کا جنسی و جسمانی تشدد برداشت کرتی رہی۔ اس ملازمہ پر بار بار فرار ہونے کی کوشش کا الزام بھی بہت اچھالا گیا۔ اس کے لیگل سپانسر اور قاتل کو عدالت نے نفسیاتی مریض قرار دے کر علاج کا مشورہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔ ان حالات میں میریسیا یقیننا پولیس میں کبھی رپورٹ نہیں کرے گی۔

دس نومبر

میں کئی دنوں تک مادام کے ساتھ جم نہ جا سکی نہ ہی جو سے ملاقات ہوئی۔ چند ماہ بعد پتہ چلا کہ وہ جم اور سیلون کسی اور نے خرید لیا ہے اور ساری مینجمنٹ تبدیل ہو چکی ہے۔ جو کے پاس میرا فون نمبر تھا پھر بھی رابطہ نہیں کیا اس نے۔ جانے کس حال میں ہوگی ؟ اسے واپس لوٹ جانا چاہیے۔ کہیں میری طرح وہ بھی مستقلا پر دلیس کی باسی بن کر نہ رہ جائے ۔ میری ملازمت کے پچیس سال مکمل ہو چکے ہیں۔ یہیں پر عمر بیت گئی اور اب بڑھاپے کی آمد آمد ہے۔ میرے سپانسرز بھی ضعیف عمر میں داخل ہو چکے ہیں ۔ اب ان کی تمام اولاد یں مغربی ممالک میں سکونت اختیار کر چکی ہیں۔ عمر کے ساتھ بڑھنے والی تکان اپنی جگہ مگر پھر خود کوتسلی

دیتی ہوں اب کام کا دباؤ بھی تو کم ہے۔ صرف دولوگوں کی دیکھ بھال ہی تو کر نا ہوتی ہے۔

پانچ جنوری

ڈرائیور گل خان بھی پچھلے سال اپنے وطن لوٹ گیا تھا۔ اس کی جگہ آج نیا فلینی ڈرائیور آ گیا۔

ہے۔ مگر میں نے کہاں جاتا ہے اب وطن میں کوئی بھی اپنا نہیں جس سے رابطہ باقی ہو۔ کفیل کے وہ بچے جنہیں میں نے پال پوس کر بڑا کیا تھا جب بھی یورپ سے یہاں آتے ہیں تو بڑا لحاظ کرتے ہیں۔ کئی چھوٹی موٹی چیز میں بھی لاتے ہیں مگر ان سب اشیاء کی اب مجھے کوئی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

دس فروری …

کل جو کا فون آیا تھا۔ وہ اپنے سفارت خانے کے ساتھ رابطے کی کوششوں کا بتا رہی تھی تا کہ کسی

طرح وطن واپس جاسکے۔ وہ بہت فکر مند تھی ۔ اگر اسی دوران اس کے شوہر کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا ؟ وہ مجھے پوچھ رہی تھی کہ آخر اتنے سال کبھی چھٹی لے کر بھی کیوں نہیں گئی۔ ایک ہی جگہ اتنا عرصہ کیسے گزار دیا جبکہ گھر یلو خادماؤں کا فرار ہونا تو یہاں ایک معمول بن چکا ہے۔

واپس جاتی بھی تو کس کے پاس؟ ماں باپ چل بسے تھے شادی ہوئی تو نا کام ۔ ایک بیٹی تھی جو کام ایک ہی تھی جو میرے یہاں آنے کے بعد نمونیہ سے وفات پاگئی۔ پھر دل پر پتھر رکھ لیا اور وطن میں موجود اپنے بھائیوں کی ذمہ داری اٹھائی۔ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرتے ، ان کی ضروریات پورا کرتے یہ یاد ہی نہ رہا کہ چھٹی لے کر وطن جاؤں ۔ جبھی تو یہاں مادام کو بھی تنگی نہ ہوئی اور میں نے بھی اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی کچھ نہ سوچا۔

چار مارچ

گل خان مجھے کہا کرتا تھا کہ کب تک یون تنہا زنگی گزارو گی۔ یہیں کسی سے شادی یا زواج مسیار ہی کر لو۔ کیا ساری عمر اسی طرح دوسروں کی خدمت کرتے گزار دوگی ؟ اور میں اس سے پوچھتی، خان بتاو، بھلا زواج مسیار کی جز وقتی شادی کر کے کونسا گھر بستا ہے؟ چار دن ساتھ رہو گے پھر تم تو اپنے وطن سدھارو گے اور میں شاید یہیں مر کھپ جاوں یا شاید وطن لوٹ جاوں۔ مگر واپس جا کر وہاں کیا کروں گی ؟اتنے سال یہاں گزارنے کے بعداب وطن تو ایک دھندلا سایہ بن چکا ہے۔

پندرہ اپریل

بہتر معاشیات کی تلاش میں ہمارا وہ حال ہوا ہے جیسے ریل کے پیچھے تیز بھاگتے مسافر کی جمع پونجی وہیں کہیں پلیٹ فارم پر دھری رہ جائے اور مسافر ریل پر سوار کسی اجنبی زمیں پر جا پہنچے۔ ہمارا اصل حاصل جانے کہاں رہ گیا تھا۔ اپنے آبائی محلوں میں، ریل کی پڑی پر یا جدید بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر؟ پھر ماہ و سال کے مدو جزر میں عمر کی نقدی بھی تھکے ہارے ملاح کے ہاتھ سے کشتی کی ڈور کی مانند پھسلتی چلی گئی۔ یہاں کئی قوموں کے باشندوں نے اپنی آزادیاں ، خواب ، شب و روز اور اپنے احساسات تک گروی رکھ کر فقط کچھ مادی چیزیں خریدی تھیں۔ وہ چیزیں بھی بیشتر لوگوں نے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے حاصل کی تھیں۔ اور وقت اتنی تیزی سے کروٹ بدلتا ہے جیسے صحراؤں میں دن ڈھلے تک روشنی رہتی ہے اور پھر سورج ڈوبتے ہی اچانک اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ایسے ہی عمر کا سورج اوٹ میں جا چھپا جس کا ادراک بہت دیر سے ہوا۔

یکم مئی

مادام کہتی ہیں اب مجھے اپنے وطن واپس چلے جانا چاہیے۔ بڑھاپا آرہا ہے۔ اتنے بڑے گھر کے کام

سنبھالے نہیں جاتے ۔ وہ کسی نئی خادمہ کا بندو بست کریں گی ۔ آج مادام کی بات سن کر مجھے گل خان بڑا ہی یاد آ رہا ہے۔ وہ کہا کرتا تھا وقت پر لوٹ جانا چاہیے ورنہ آشیانے بھی پہچاننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اجنبی زمینوں پر انسان تنکوں سے بھی ہلکا ہوتا ہے۔ زمانے گزار دو خود کو پودوں کی مانند زمین میں گاڑ لو تب بھی اجنبی انسانوں کو بیگانی مٹی جڑیں نہیں گاڑنے دیتی۔ کوئی اندازہ نہیں ہوتا ہوا ئیں کب انہیں اذن سفر دے دیں۔

دس جون

جو واپس چلی گئی۔ جاتے وقت وہ فون نہ کر سکی تھی ، بس ایک پیغام چھوڑ گئی تھی ۔ وہ جم اور سیلون تیسری بار فروخت ہو چکا ہے۔ اس کی کولیگ میر یسا پہلے ہی واپس جا چکی ہے۔ سالانہ میڈیکل چیک اپ میں اس کا ایچ آئی وی پازیٹو آیا تھا تو محکمہ پاسپورٹ نے اسے ڈیپورٹ کر دیا۔ وہ سیلون شاید کسی بھی مالک کو راس نہیں آیا۔ کل جب اس سڑک سے گزری تو وہاں ایک سپر مارکیٹ کی تعمیر ہو رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ زمینیں بھاری اور بنجر ہو جاتی ہیں کیا واقعی آہیں اپنا اثر رکھتی ہیں؟ لیکن اگر ایسا ہوتا تو اس روئے زمین پر انسانوں کے ستم اتنے ہیں کہ کچھ بھی باقی نہ بچتا۔

تیس جون

اول تو رات کو اندیشوں میں گھر سے نیند ہی نہیں آتی ۔ اگر آ بھی جائے تو عجیب و غریب خواب ستانے لگتے ہیں۔ اکثر خوابوں میں مجھے آبی جھیلوں کے کنارے تعمیر لکڑی کے پرانے گھر نظر آتے ہیں۔ انہیں میں میرے بچپن کا گھر بھی ہے جہاں آنکھ کھولی ، جہاں غربت اور محرومی دیکھی۔ مگر اس گھر میں ایک آزادی تھی۔ ایک اپنا پن تھا۔ غربت ، جھیلیں ، رشتے، دوست، درخت اور پرندے ، سب کچھ اپنا تھا۔ اتنے عرصے بعد یہ سب خوابوں میں کیوں نظر آنے لگا ہے۔ کیا پرانے گھر ہمیں پکارتے ہیں؟ پھر خود کو سمجھاتی ہوں کہ اکثر لوگوں کو وہ پرانے بچپن کے گھر نظر آتے ہوں جو باقی نہیں رہتے ۔

دس جولائی

تھکن سے چور بدن لیے راتوں کو کروٹیں بدلتے اب سوچیں بھی نئے رخ اختیار کر چکی ہیں۔ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے اس دور میں غلامی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ اب بین الاقوامی غلامی کے لیے نئے دلکش الفاظ ہیں اور نہ صرف لوگوں بلکہ پوری پوری قوم کو غلام بنانے کے جدید طریقے رائج ہو چکے ہیں۔ معیشیت کے پھندے اس طرح پھیلائے گئے ہیں کہ غریب شخص یا قوم کے لیے اس چنگل سے آزاد ہونا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ میں نے یہاں غیر ملکی لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے چند برانڈڈ چیزوں کے عوض زندگیاں رہن رکھتے دیکھا ہے۔ پھر بھی وہ اپنوں کے خلوص سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوریاں بیچ میں خود غرضی کی دیوار میں حائل کر دیتی ہیں اور بے وطن محبتوں کے متلاشی ان دیواروں کو قیمتی تحفوں کی مدد سے پھلانگنے کی کوشش کرتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ تحفوں کے صرف برانڈ نیم باقی بچتے ہیں۔ خلوص محبت رشتے سب مٹی کے ڈھیر کی مانند ڈھے جاتے ہیں۔ لوگ دوسرے ممالک کی طرف ہجرت بہتر اور محفوظ مستقبل کے سپنے سجائے کرتے ہیں۔ اب سوچتی ہوں کہ آخر کامیابی کیا ہے ؟ بہتر مستقبل کیا ہے اور کیسے حاصل ہوتا ہے ؟ بڑے بڑے ہوائی اڈوں ،سڑکوں، ہوٹلوں اور ریسارٹس میں مجھے چیونٹیوں کی مانند رینگتے بے وقعت انسانوں کا لہو پسینہ نظر آتا ہے۔ وہ اپنوں اور بیگانوں کے دو طرفہ استحصال کا شکار وقت کا ایندھن بنے رہ جاتے ہیں۔ کنکریٹ کے مکان، بنک

بیلنس اور قیمتی اشیاء کی چاہ میں جھیلیں، درخت، آبی پرندے سب چھوٹ جاتے ہیں مگر بہتر مستقبل پھر بھی نہیں ملتا۔

اکتیس جولائی

اب یہ فون ہی میرا اکلوتا دوست رہ گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر اپنے ، جو ، میریسا اور گل خان جیسے لوگوں کے بے شمار قصے پڑھتے پوری دنیا کی نئی گلوبل تصویر اب زیادہ واضح نظر آنے لگی ہے۔ مجھے جلد ہی استعمال شدہ ڈسپوزایبل برتن کی مانند فارغ کر دیا جائے گا۔ پچھلی صدی میں جتنے وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں معاشی ہجرتیں ہویئں، انہوں نے اس صدی میں نئی طرذز کی ڈسپوزایبل غلامی کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ ٹشو پیپر کی مانند انسانوں کو استعمال کرو ، جب تک ضرورت ہو ان کی جسمانی و ذہنی توانایئاں استعمال کرو اور جب چاہے پھینک دو۔

یکم اگست

میرے پاسپورٹ پر فائنل ایگزٹ لگ چکا ہے۔ کسی بھی دن فلائٹ مجھے ان ریتلی زمینوں سے چدور لے اڑے گی۔ سوچ رہی ہوں وطن پہنچ کر جاوں گی کہاں ؟سارے رشتے ناطے تو کہیں بیچ راہ چھوٹ چکے ہیں۔ مگر اب مجھے بھی سیلمون فش کی مانند سمندر سے واپس دریا اور پھر آبائی چشمے کی طرف لوٹ جانا چاہیئے۔ شاید کہیں ان پرانی آبی جھیلوں کا نشان مل جائے جہاں ہمارا لکڑی کا بنا گھر ہوا کرتا تھا۔

تیرہ اگست

ائر پورٹ کا عملہ اور سیکیورٹی اہلکار جہاز کے اندر موجود تھے۔ سٹریچر پر ڈال کر دوران پرواز انتقال کر جانے والی خاتون کی نعش کو ہسپتال منتقل کیا گیا جس کی شناخت سیسی بیٹلون کے نام سے کی گئی ۔ اس کے پاسپورٹ پر لکھا پتہ تبدیل ہو چکا تھا۔ ورثا ء کا پتہ لگانے کے لیے سیل فون کے تمام فولڈر کھولے گئے مگر کسی ایڈریس کی بجائے نوٹس میں لکھی یہ تحریریں ملیں جن پر سیلمون فش کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031