ریشمیں اندھیرے میں ۔۔ صدف اقبال
“ریشمی اندھیرے میں “
صدف اقبال
۔ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
نیند کیوں اچٹتی ہے
آنکھ کیوں ٹپکتی ہے
ہونٹ تھرتھراتے ہیں
بارشوں کے موسم میں
بس ہوا کے جھونکے سے
اور شب کے دھوکے سے
جسم تھرتھراتے ہیں
بے حجاب شاموں میں
ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
درد کے غلافوں میں
نیند کے دریچے ہیں
نیند کیوں اڑائے ہے
خوف کیوں ستاتے ہیں
خوشبؤں کا موسم ہے
ریشمی اندھیرا ہے
زندگی بھٹکتی ہے
زندگی کے کاموں میں
ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
کیسا یہ اندھیرا ہے
اور کیوں ستارے ہیں
آسماں کے درپن میں
اوس کے نظارے ہیں
ریشمی بدن تیرا
خواب کے جزیرے میں
اور میں بھٹکتی ہوں
ان گلابی شاموں میں
ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
مئے کدے کے رستے پہ
لوگ ڈگمگاتے ہیں
شام کے اجالے میں
خواب جاگ جاتے ہیں
کس لیے وہ چلتے ہیں
آنسؤں میں ڈھلتے ہیں
روپ کیوں چھلکتا ہے
عاشقی کے جاموں میں
ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
ریشمی اندھیرا ہے
ملگجی سی راتوں میں
بیل جیسی لپٹی ہوں
خواب کے دریچوں سے
خوشبؤں کا جھونکا ہوں
رات کی میں رانی ہوں
نام میرا شامل ہے
تیرے کتنے ناموں میں
ایسا کیسے ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں