غیر ضروری جڑی بوٹی۔۔۔صدف شاہد
غیر ضروری جڑی بوٹی
صدف شاہد
میں بھول بیٹھی ہوں
وہ رستہ جس پہ میں بچپن سے چلا کرتی تھی
جب میں پیدا ہوئی
اس رستے پہ بھاگتے ہوئے ایک عورت نے
ناشکری کی کڑواہٹ بانٹی تھی
وہ سب نے چکھی
مجھ سمیت سب بہت روئے
میں بےبس تھی
بےبس سے زیادہ حیران
یہ وہ زمین نہیں تھی جہاں میں نے اگنا تھا
غیر ضروری جڑی بوٹی کی طرح اکھاڑ کر مجھے کھیت سے نکال دیا گیا
اور میں کنارے پہ پڑی سوکھتی رہ گئی
مجھے میری ماں بھی پانی دینے نہیں آئی
وہ عورت جو کڑواہٹ بانٹتی تھی وہ مجھے پانی دے گئی
تلخیوں کا، نفرت کا اور بےبسی کا
لیکن اس بار بےبسی میں شامل حیرت نہیں تھی
اس جگہ جہاں میں نے اپنا جسم بنایا
جہاں میرا دل پہلی بار دھڑکا تھا
وہاں میرے بعد مجھ جیسا ایک انسان آیا
وہ مجھ سے مختلف تھا
میں پھٹ پڑی
اس بار ناشکری سے بنی کڑواہٹ نہیں بانٹی گئی
اس بار گاڑھی محبت سے بنی
شُکر کی ٹکیاں بانٹی گئیں
ایک عورت خوشی سے شرماتے، مسکراتے سب سے ملتی رہی
اور وہ میری ماں تھی
میں وہاں موجود نہیں،
مگر میں سن سکتی تھی
دو عورتیں پیٹ میں رکھی غیر ضروری جڑی بوٹی کو تلف کرنے کی بات کرتی ہیں
وہ عورتیں ناشتے میں بےرحمی کھاتی ہیں
وہ لمبے ناخنوں اور بھیانک چہرے والی چڑیلیں ہیں
جو اپنے پھولے پیٹ کو ناخنوں سے نوچ ڈالیں گی
اور پھر سے امید لگائیں گی
ایک نئے جیون کی
اور بانٹتی پھریں گی “شُکر” کی ٹکیا