ایک درخت کی دہشت ۔۔۔ سعید الدین
ایک درخت کی دہشت
سعید الدین
میں کہاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے
میں تو خود کلھاڑے اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں
میں چاہتا ہوں
کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے
میرے دل تک پہنچے
کوئی محتا ط آری
کوئی مشتاق ہاتھ مجھے تراش کر
ملاحوں کے لیے کشتیاں
اور مکتب کے بچوں کے لیے تختیاں بنائے
اس سے پہلے
کہ میری جڑیں بوڑھی داڑھ کی طرح ہلنے لگیں
یا میری خشک ٹہنیاں آپس میں رگڑ کھا کر جنگل کی آگ بن جائیں
Facebook Comments Box