آٰخری موڑ ۔۔۔ سعیدہ گزدر
آخری موڑ
( سعیدہ گزدر )
کیسے ہو ؟ خوش ہو ؟
بدل گئے یا وہی ہو ؟
کیا تنخواہ وقت پر ملتی ہے
یا اب بھی
وہ تمہارا استحصال کرتے ہیں
صلاحیتون کے خلاف کام لیتے ہیں
کیا نیند آ جاتی ہے ؟
کیا یادیں جگاتی ہیں ؟
نرمی سے بھری وہ باتیں اور وعدے
جو خوابوں کی مانند سچے لگتے تھے
جب آخری موڑ پر ہم تم بچھڑے تھے
وہ دن آج بھی زندہ ہے
تازہ اور روشن ہے
تم نے پوچھا تھا
کیا بھول جاو گی ان چمکتی راتوں کو
ہاں شائد
سردی میں ٹھٹرتا اندھیارا
پھٹا پرانا بوسیدہ کمبل
شک شبہ اور کڑوا انتظار
چوبیس گھنٹوں کا فاقہ
اور روکھی سوکھی اس کے بعد
کڑوی کسیلی چائے کے گھونٹ
کمرے کی بے سرو سامانی
گھبراہٹ، خوف اور بے بسی
تلخی، محرومی اور تنہائی
سب بھول جاوں گی
بس دھیمی سرگوشی اندھیرے میں
لپکتی باہیں
کھلتے بند ہوتے لب
آنکھوں کی دمک
پیار کا والہانہ پن
اس دل مین بسا رہے گا
ہر دم ساتھ رہے گا
مرنے نہ دے گا