مسجد کے سائے میں ۔۔۔ سعیدہ گزدر
مسجد کے سائے میں
چھوٹا سا بچہ
وہ ننھا فرشتہ
بے بس، بے گھر
چلنے سے مجبور
اٹھنے سے معذور
آنکھیں موندے
مٹھی تانے
چونچ برابر منہ کھولے
چادر میں لپٹا
نہ جانے کون اور کب
کس مجبوری میں
آس اور مایوسی میں
چھوڑ گیا تھا
مسجد کے سائے میں
خدا کے گھر سے
کوئی تو نکلے گا
بے بسی، بے کسی کی اس گٹھری کو
ہاتھوں میں تھامے گا
سینے سے لگائے گا
انگلی پکڑ کے
جینے کا ڈھنگ سکھائے گا
اور نہیں تو
بیس قدم پر تھانہ ہے
قانون اور انصاف کے رکھوالے آئیں گے
ہلتی ڈولتی گردن کو تھامیں گے
بہلائیں گے پھسلائیں گے
کوئی گھر بھی ڈھونڈ لیں گے
وہ نکلے
پیشانی پر سجدوں کے نشان سجائے
کلمہ پڑھتے، درود گنگناتے
انگلیوں پر تسبیح کے دانے گھماتے
غصہ میں منہ سے جھاگ اگلتے
نفرت میں تھر تھر کانپتے
چادر میں لپٹی یہ روح شیطانی
معصومیت کے بھیس میں بلا ناگہانی
کون جانے
سفید چادر کے اندر نوکیلے دانتوں والا
سینگوں اور خونی پنجوں والا
اک شیطان چھپا ہے
ہماری نمازوں کو
عبادت اور طہارت کو
آلودہ کرنے
کوئی چھوڑ گیا ہے۔
آو اس سے پہلے کہ یہ عفریت
چادر سے نکلے
جیون کا امرت پیئے
اور ہمارے سینوں پر مونگ دلے
اسے کچل دیں ۔
لیکن دیکھو دور سے
پاس جاو گے
رحم اور ہمدردی کے
طلسم میں گھر جاو گے
مار نہ پاو گے
“دور سے؟ لیکن کیسے؟”
تسبیح کو کلائی میں اٹکا کر
انگلیوں میں پتھر تھام کر
بولے
“ایسے!”
ایک ننھا سا گدگدا ہاتھ
باہر نکلا
مٹھی کھلی ہاتھ نیچے گرا
ہاں!
ایسے ۔۔ ایسے ۔۔ ایسے ۔۔
ایک ساتھ
بہت سے پتھر
اس چھوٹے سے بچے پر
ننھے فرستے پر
برستے رہے
چادر کے اندر
بے آواز، بے صدا
نہ ہلا، نہ جلا
نہ جانے کب
اس دنیا سے چلا گیا
فرشتوں نے
معصوم بے زبان روح کو
اس کے حضور پیش کیا
نرمی اور محبت سے
اٹھا لیا جھک کر
اور گلگلے گالوں کو
تھپتھپا کے پوچھا
اتنی بھی کیا جلدی تھی
ابھی ابھی تو آنکھ کھلی تھی
روشن روشن اور چمکیلی
کیوں لے آئے؟ جینے دیتے
ہنسنے اور کھیلنے دیتے
دنیا میں کچھ اجالا پھیلنے دیتے
فرشتوں نے ہاتھ باندھے
اے خدا، اے رب العالمین
تیری دنیا میں
مسکرانے اجالا پھیلانے والوں کو
نیکی اور محبت کو
پاکیزگی اور معصومیت کو
تیرے نام لیوا اور تیرے بندے
سنگسار کر دیتے ہیں
مسجد کے سائے میں ۔۔
Read more from Saeeda Gazdar
Read more Urdu Poetry