وارنٹ ۔۔۔ سعیدہ گزدر
Saeeda Gazdar, a short story writer and a poet. She also wrote articles on social issues for newspapers.and had politically progressive ideology and was associated with people like Sibte Hassan, Dorab Patel and Faiz Ahmed Faiz.
وارنٹ
(سعیدہ گزدر )
” بھلائی ” کے ایڈیٹر بخاری صاحب کا مکان یہی ہے ؟ “
انسپکٹر نے بایئں ہاتھ کی ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ میں پکرا ہوا چھوٹا سا ڈنڈا ہلکے ہلکے مارتے ہوئے پوچھا۔ ایک پیڑ کی چھاوں میں چارپائی کے اوپر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ دو تین مونڈھے آس پاس رکھے تھے۔ ان میں سے ایک پر بخاری صاحب کا بڑا بیٹا بیٹھا تھا۔
” جی یہی ہے۔ ” اس لڑکے نے ہاتھ ہلاتے ہوئے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔
“انہیں اطلاع کر دیجئے کہ میں ملنا چاہتا ہوں ” انسپکٹر نے کھٹرے کھڑے رکھائی سے کہا۔
” جی۔ بیٹھئے گا نہیں ؟ ” لڑکے نے سٹ پٹا کر انسپکٹر کا چہرہ دیکھا۔
” نہیں شکریہ ۔مجھے بخاری صا حب سے کام ہے۔”
” وہ اب کہاں ملیں گے ؟ “
” کیوں ؟ کہاں چلے گئے ؟ ” انسپکٹر نے چونک کر لڑکے کو دیکھا
” وہ تو ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ” لڑکے نے گہری سانس لیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا “کبھی نہ واپس آنے کے لئے”
” ہنھ۔ روپوش ہو گئے ؟ انسپکٹر نے سخت برہمی سے کہا، “لیکن میں ۔۔۔””
” جی۔ ہمیشہ کے لئے، منوں مٹی تلے ” لڑکا مونڈھے پر بیٹھنے لگا۔ اسے انسپکٹر کے لہجے کی بے حسی سے کوفت محسوس ہو رہی تھی۔
” آپ مجھ سے کس قسم کے ڈایئلاگ بول رہے ہیں ؟” انسپکٹر نے ناگواری سے کہا۔
” اور میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ پُرسے کے لئے آنے اور گفتگو کرنے کا یہ کون سا ڈھنگ ہے ؟ “لڑکے نے تیز لہجے میں بات کی
“پُرسے کو، پُرسے کو کون آیا ہے اور کس کے پُرسے میں ؟ میں تو بخاری صاحب کو پوچھ رہا ہوں۔
” میں یہی تو بتا رہا ہوں کہ میرے والد پرسوں ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ “
” آپ غلط بیانی سے کام نہ لیجئے۔ قانون کا احترام کیجئے ورنہ والد کی جگہ ہو سکتا ہے آپ تھانے میں ہوں۔ “
” یہ کوئی نئی بات نہ ہو گی۔ آپ مجھے قانون کا احترام کرنا سکھا رہے ہیں اور میری بات کا بھروسہ نہیں کرتے۔ کیا میں ایسا چھچھورا دکھائی دیتا ہوں کہ اپنے والد کی زندگی اور موت کے بارے میں ایسا بھونڈا مذاق کروں گا ؟ ” لرکے کو اب بہت غصہ آ رہا تھا انسپکٹر کی بے اعتباری پر۔
” بھروسہ کرنے لگوں تو کل یہ وردی اتارنی پڑے گی ” ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے لڑکے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تحکمانہ لہجے میں بات شروع کی۔ ” میں یہاں کا باشندہ نہیں ہوں لیکن زمانہ گزر گیا ہے اس جگہ ملازمت کرتے ہوئے۔ چڑیوں تک کو پہچانتا ہوں۔ میرے پاس بخاری صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ ” جیب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکال کر دکھایا ” مجھے بھی بے وقت کا مذاق سخت نا پسند ہے۔ مہربانی کر کے انہیں جا کر اطلاع دیجئے ورنہ ہمیں گھر کی تلاشی لینا پڑے گی “
” آپ برسوں سے یہاں ملازمت کر رہے ہیں اور میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں اس زمین میں دفن ہیں۔ آپکو یقین کر لینا چاہئے، میرے والد اتنے بھی غیر معروف نہیں تھے ” لڑکا بری طرح جھنجھلا رہا تھا اور شدت سے چاہتا تھا کہ انسپکٹر کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دے یا کچھ ایسا ہو کہ اس آدمی سے اسے بات نہ کرنی پڑے۔
” مجھے گھر کی تلاشی لینی پڑے گی ” انسپکٹر نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔
” میں اسکی اجازت نہیں دے سکتا، یہ میری توہین ہے۔ “لڑکا کُود کر بیچ میں آ گیا۔ ” پوری بستی جانتی ہے میرے والد پرسوں انتقال کر گئے اور آپ کو ذرا خیال نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ “
” یہ وارنٹ مجھے اختیار دیتا ہے کہ میں جس طرح چاہوں اپنا اطمینان کروں۔ ” انسپکٹر نے پھر وارنٹ دکھایا۔
“چاہے آدمی مر چکا ہو ” لڑکا غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
“چاہے آدمی مر چکا ہو ” انسپکٹر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا
لڑکا جواب دینے ہی والا تھا کہ چند لوگ بیچ میں آ گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ انسپکٹر نسبتا شرافت سے کام لے رہا ہے ورنہ عام حالات میں لڑکے کا منہ، ہاتھ پاوں اور جسم اب تک لہو لہاں ہو چکا ہو تا۔
تلاشی شروع ہوئی۔ کرسی، میز، پلنگ سب کے نیچے ، پھر صوفوں کے گدے، تکیے وغیرہ ادھیڑ دئے گئے۔ گھر والوں نے احتجاج کرنا چاہا تو آگے بندوق کر کے بس اتنا کہنا کافی ہوا۔
” یہی طریقہ ہے “
اماریاں کھول کر ان میں رکھا سامان، کپڑا لتا بکھیر دیا گیا۔ برسوں سے بند پڑے خالی صندوق، کنستر، مٹکے اور برتن کھولے تو ان میں جھینگر اور دوسرے کیڑے نکل کر بھاگے۔ ایک سپاہی پیٹ کے بل لیٹ کر چوہے دان میں جھانکنے لگا۔ لڑکا دونوں ہاتھ باندھے دیوار سے ٹیک لگائے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ غم، غصے اور بے بسی کی شدت سے اسکا دماغ سنسنا رہا تھا اور کانوں کے پیچھے ، انتہائے ضبط سے کوئی رگ بر طرح دکھنے لگی تھی۔
” مرغی خانے میں دیکھا ؟ ” انسپکٹر نے سپاہی سے پوچھا
“جی “
” اور پیچھے صحن میں ؟”
” اُس طرف عورتیں ۔۔۔۔۔”
” میں نے کیا کہا تھا ؟ کوئی جگہ نہیں چھوڑنی ہے۔ ” انسپکٹر نے سخت غصے میں کہا۔ بخاری کی موت جیسے اس کی قوت اور اختیار کے لئے چیلنج بن گئی تھی۔
ایک کانسٹیبل کوئلے کی کوٹھری میں سے باہر نکلا تو پورا کالک میں اٹ گیا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔
” اپنا حلیہ ٹھیک کرو “۔۔ انسپکٹر اپنے آدمی کا مذاق بنتے اور بخاری کے بیٹے کی غم و غصے میں ڈوبی بےحد سنجیدہ اور خاموش صورت دیکھ کر کگسیا گیا۔ ” ہاتھ منہ صاف کرو” اس نے صحن سے کچھ فاصلے پر کنویں کی طرف اشارہ کیا۔ پھر کچھ سوچ کر آہستہ آہستہ خود بھی کنویں کی جانب چل دیا۔ تھوڑی دیر تک وہ یون ہی کنویں کا چکر لگاتا رہا پھر جھانک جھانک کر اندر دیکھنے لگا۔ آخر ہر لحاظ کو چھوڑ کر اپنے آدمیوں کو آواز دی کہ کنویں کی تلاشی بھی لی جائے گی۔ وہاں بھی کچھ نہ ملا بجز ایک مینڈک کے۔
” میں موت کا سرتیفیکیٹ دیکھ سکتا ہوں ” انسپکٹر ابھی تک گھر سے باہر جانے میں جھجھک محسوس کر رہا تھا۔ سرٹیفیکیٹ لایا گیا۔
” ہنھ۔۔؟ ” وہ کافی دیر کاغذ کو گھورتا رہا جیسے ذہن پر زور دے کر کچھ سوچ رہا ہو۔ ” میں ان کی قبر دیکھ سکتا ہوں ؟ ” آخر اس سے نہیں رہا گیا۔ لڑکا ہکـا بکـا انسپکٹر کی شکل دیکھتا رہ گیا۔
” چلئے۔۔۔میرے پاس آپ کے شک کا کوئی علاج نہیں” وہ طنز سے بولا اور آگے آگے چل پڑا۔
” یہاں میری نہ جانے کتنی پشتیں ۔۔۔۔” لڑکا کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
” آپ کے والد۔۔۔؟ “
لڑکے نے ایک تازہ قبر کی جانب اشارہ کیا جس پر تازہ پھول پڑے تھے اور اگر بتیوں کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ لڑکا فاتحہ پڑھنے لگا۔ انسپکٹر چاروں طرف سے گھوم کر قبر کا معایئنہ کرنے لگا۔
” بند ہے ” لڑکے سے آخر صبر نہیں ہوا۔
” جی۔۔! ” انسپکٹر کچھ شرمندہ لگ رہا تھا۔
” یہ کہ اس علاقے میں قبر کو چاروں طرف سے بند کر دیتے ہیں۔ پاٹ دیتے ہیں۔ ” لڑکے نے علاقے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” اچھا۔ پھر میں فاتحہ پڑھ لون ؟ ” انسپکٹر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ لڑکے نے کندھے اچکا دیئے۔ ڈنڈا بغل میں داب کر انسپکٹر فاتحہ پڑھنے لگا۔
” ایک بات بتایئے انسپکٹر صاحب۔ ” لڑکا پولیس پارٹی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا قبرستان سے باہر نکلا۔ ” آپ کے خیال میں میرے والد کا جرم اتنا سنگین تھا کہ آپ سے چھپنے کے لئے انہیں مرنے کا بہانہ کرنا پڑتا ؟ “
” کہہ نہیں سکتا ” انسپکٹر نے رفتار دھیمی کرتے ہوئے کہا۔ ” میرے پاس چوروں ، ڈاکووں اور مقامی مجرموں کی جو فہرست ہے اس میں ان کا نام نہیں ہے۔ ” پھر کچھ سوچ کر بولا ” برا نہ مانئے گا، مجھے اپنا فرض پورا کرنا تھا۔ گرفتاری کے احکام اوپر سے آئے تھے اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ان کا جرم کتنا سنگین تھا۔ ہو سکتا ہے آپ کے والد نے رسالے میں کچھ لکھ دیا ہو ۔۔۔” انسپختر رک گیا۔پھر ہاٹھ آگے بڑہاتے ہوئے بولا ” بہر حال مجھے افسوس ہے ”
” کس بات کا ؟ ” لڑکے نے مصافحہ کرتے ہوئے پھیکی سی مسکراہٹ سے پوچھا۔