نظم ۔۔۔ صفی سرحدی
ظم
صفی سرحدی
ٹرین کی پٹری سے تعلق نبھاتا آدمی
میں نہیں جانتا ٹرین کی پٹری سے
میرا تعلق کتنا پرانا ہے
کچہ گھڑی مہاجر کیمپ کے اسٹاپ پر
سفاری ٹرین سے اترے گورے نے
گلے میں لٹکے کیمرے سے
میری تصویر کیوں اتاری تھی
ہر اتوار کو سفاری ٹرین کی سیٹی
اتنی میٹھی کیوں ہوا کرتی تھی
گھر سے دوڑ لگانا فرض تھا
بھلے ٹرین گزر چکی ہوتیں
نجانے کیا سوچ کر اس دن میں نے
گھر ماچس لانے کیلئے دو روپے کا سکہ
پٹری پر ٹرین کیلئے رکھ چھوڑا تھا
ٹاس لائق رہنے سے محروم وہ سکہ
معلوم نہیں مجھ سے کہاں کھو گیا
جانے پھر وہ سکے میں ڈھلا ہوگا یا نہیں
ممبئی کی کچی بستی میں
ہاتھ سے کپڑے دھونے والی
اس سانولی لڑکی کو کیا اب بھی
کوئی ٹرین کی کھڑکی سے تاڑتا ہوگا
راجدھانی ایکسپریس میں
اس ہمسفر لڑکی کا میں کیا کروں
جس نے دہلی تک میرا اکیلا پن بانٹا تھا
راجستان کی اس شام کو
میں کہاں فریم کرواؤں
جب صحرا میں کھڑا تنہا درخت
ڈھلتے سورج سے انکھیں ملا رہا تھا
اور سندھ کے اس بچے کی تصویر
میں کہاں سے لاؤں
جس نے چلتی ٹرین کے ساتھ بھاگتے ہوئے
ہاتھ لہرا کر مجھے خوش آمدید کہا تھا
پنجاب کے اس کچے گھر کو
میں کہاں سے لائیو دکھاؤں
جہاں ایک ادھیڑ عمر ماں
اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی
راولپنڈی اسٹیشن پر صبح سویرے
ٹرین کے پیچھے بھاگتی اس لڑکی کو
میں کیسے روک سکتا ہوں
جسے ٹرین تک پہنچانے میں
میری سانیس اکھڑ گئیں تھیں
کارخانو مارکیٹ کی پٹری پر
جس بھکاری نے
میری گود میں دم توڑا تھا
اس کو میں کہاں دفن کراؤں
اور وہیں پہ اس ہیروئنچی سے
میں کہاں اپنا منہ چھپاؤں
جسے تپتی دپہر میں وداع کرتے ہوئے
اسی کے پاس پڑی گرم پانی کی بوتل سے
میں نے اسے آخری گھونٹ پلایا تھا
بھلے سفاری ٹرین بند ہوچکی ہو
مگر لنڈی کوتل سے
میرا رومانس کبھی ختم نہیں ہوسکتا
برٹش ریلوے کا یہ آخری اسٹیشن
ڈھلتی شام میں
ٹرین کے بغیر بھی مکمل سا لگتا ہے
یہاں تک آئی ہوئی ٹرین کی پٹری
اب کچھ اکھڑی اور کچھ دفن ہوچکی ہے
اور جو باقی ہے اس پر پیدل چل کر
میں اکثر یہ سوچتا ہوں
ٹرین کی پٹری سے میرا تعلق کتنا پرانا ہے
مگر مجھے جواب نہیں ملتا
معلوم نہیں کہ زندگی
آگے کن پٹریوں پر بسر ہوگی
شاید کسی دن مجھے جواب مل جائے
لاوارث لاش کی خالی جیب کی طرح
مگر مجھے یقین ہے اس دن
کسی خالی ٹرین میں
میری سیٹ ضرور بک ہوچکی ہوگی۔