کائی میں لپٹی بیوہ ۔۔۔ صفیہ حیات
کائی میں لپٹی بیوہ
صفیہ حیات
وہ بدن پہ مرد کے نام کی
جمی کائی کھرچتی رہی
کھرچن
چاردیواری کے سوراخوں میں
کبھی رستہ نہ بنا پائی
یہ تو
آنگن میں لگے پیڑنے
ہوا کو پاوں پہنائے
یہ کم بخت ایسی کٹھور نکلی
جتے جاتے ہر پتے پہ
کتھا لکھ گئی
اب سارا جنگل بھانت بھانت
بولیاں بولتا ہے
کل بھی نیم کے پتے
اس کے عیب لکھ لائے
آج بانسوں کے سبزیلے پہ
نامردی کو عورتانہ نا اہلی لکھا دیکھا
وہ جنگل کی طرف ہوا خوری کے لیے نہیں جاتی
سب سرگوشیاں کرتے ہیں
اسے دیکھ کر بوڑھا برگد انہیں خاموش کرواتا ہے
وہ مسکراتی بہری
نصیحتوں کے ریشم کاٹتی
عزم مصمم کے تیز دانتوں سے ان گنت لہراتے بل کھاتے سوالوں کی گھنجلوں میں
الجھی زمانے سے لڑتی عورت اپنے زیور اور
اس کی غیرت و مردانگی کا ادلہ بدلہ کرتی
خوب مطمئن رہتی ہے۔