پابند ِ سلاسل ۔۔۔ صفیہ حیات
پابند
سلاسل
( صفیہ حیات )
ھم سب آنکھیں موندے
گرتے پڑتے چلے جارھے ہیں۔
ھم نہیں جانتے
ھمارے ساتھ کیا ھونا ھے۔
ھمیں ھماری مرضی کے بغیر
بھیج دیا جاتا ھے۔
وہاں
جہاں ھم جانا نہیں چاھتے۔
ھم سے وہ تکیہ لے لیا جاتا
ھے۔
جس پہ سر رکھ کر
ایک رات میں عمر بھر جی لیا
جائے
یر کوئی اپنی دکان سجاتا
آگ کے آلاوء سے ڈراتا
کبھی صلیب پہ لٹکاتا
جینے کا مزہ کرکرا کر دیتا
ھے۔
دیوتا پھر بھی
راضی ھونے کا عندیہ نہیں
دیتا۔
بھوکا روٹی میں خدا چھپا کر
رکھتا ھے۔
ہر پسندیدہ لقمہ
ھمارے منہ سے چھین لیا جاتا
ھے۔
چھینا چھپٹی کرتے
اکڑتے پھرتے
ھم مکاری کے کرتب دکھاتے
دھن دیوی کو آعلی وہسکی پیش
کرتے
خوبصورت لڑکی کا سودا کرتے
راتیں خریدنے والے
بھت جینے کی چاہ میں
ھم کبھی جی نہیں پاتے۔
خواہش کی کسی ڈور کا سرا
ھمارے ہاتھ میں نہیں