پیلے موسم ۔۔۔ صفیہ حیات
پیلے موسم
( صفیہ حیات )
وہ رستہ آج بھی
وہیں جاتا ھے۔
اس راہ کے سینے پہ اگا موڑ
منتظر کھڑا ھے
درخت کندھے کے ساتھ کندھا
جوڑے
ندی کنارے
نیلے پانی کے آئنہ میں
دن بھر اپنا عکس دیکھتے
سرگوشیاں کرتے
ندی کے اس پار
سرسوں کے کھیت میں
بھوری آنکھوں والی لڑکی کو
دیکھتے ھیں۔
زمزمہء کائنات کی دھن
لمحہ کی لے پہ
سر دھنتی
صدیوں کہنہ گیت گاتی ھے۔
وقت کا آنچل سرکتا
سارے حجاب سمیٹتامحو سفر
رھتا ھے۔
لڑکی پھولوں سے لدی مہکی
پگڈنڈی سے گزرتے
ہاتھ میں پکڑے سرسوں پھول
ندی کے حوالے کرتی
آنسو چھپاتی واپسی کی راہ
لیتی ھے۔
سورج اسکو رستہ دیتے
تمسخر اڑاتا ھے۔
اونہہ۔۔۔۔
پیلے موسم میں
کون پلٹ کے آتا ھے۔۔؟
Facebook Comments Box