وہ لڑکی جو نظم لکھنے سے ڈرتی تھی ۔۔ صفیہ حیات
وہ لڑکی جو کبھی نظم لکھنے سے ڈرتی تھی
صفیہ حیات
شاید تمہیں یاد ہو
تم دروازے پہ کھڑےملتے تھے
میں جب بھی
کچھ خریدنے نکلتی
بالوں کو سنوارتے
ہونٹو ں پہ سُرخی جماتے
اور
کانوں میں بالیاں ڈالتے
تم آئینے میں
میرا ھاتھ بٹاتےرھتے تھے
میرے خیالوں کے کپڑے
تپتی دھوپ میں بھی نہیں سُوکھتے تھے
ذرا سا دھواں پڑنے سے
آنکھ پانی بننے لگتی
تو تم
چُپ کراتے یہ کہکر
” پاگل،بیوقوف، نادان!!
کیو ں آنکھ کو پانی بنا تی ھو
ھم نظمیں لکھا کریں گے
ایک وہ وقت تھا
میں نظم لکھنے سے ڈرتی تھی
سہمی سہمی
دوسروں کی زندگی جیتی تھی
مگر اب میں نے اپنی کتاب خود لکھنی شروع کی ہے
اس میں
مجھے میری اپنی مرضی سے سانس لینے کا حق ہے
مجھ میں نظم لکھنے کی ہمت ہے
میں بالکل بھی نہیں ڈرتی
نظم لکھنے سے
محبت کی ھو نی سے
سچ کہوں
میں بھی تمہاری طرح
سگریٹ دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں دبا کر سلگانا چاہتی تھی
کش لگا دھواں فضا میں اڑانا چاہتی تھی
میں کسی ڈھابے پہ چائے چسکیاں لیتے سیاست پہ ،فلموں پہ بات کرنا چاہتی تھی
مگر ڈرتی تھی” لوگ کیا کہیں گے”
تمہیں نہیں پتہ
میں یہ نظم ایک ڈھابے کے بنچ پہ بیٹھی سگریٹ کا کش لگاتے لکھ رہی ہوں
سامنے چائے کی پیالی سے اٹھتی بھاپ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے
صفیہ حیات