آخری مارچ ۔۔۔ صائمہ نورین بخاری
آخری مارچ
صائمہ نورین بخاری
ہری زمین نے سرخ پھولوں کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔۔۔دبیز پردوں میں چھپے شیشوں کے باہر سورج اپنی نرم کرنیں بکھیر رہا تھا ۔۔۔۔ خوشبوؤں میں بسے سیمینار ہال میں محسن وقار کی دل چسپ گفتگو سے تقریب میں وقت کی رفتار تھم سی گئی تھی ۔۔۔محسن وقار ایک دانشور کی حیثیت سے ایک بزرگ شاعر کی کتاب پر رفو گری کے انداز میں تنقیدی بخیے ادھیڑ رہے تھے ۔۔۔۔صفی صاحب ایک شرارتی بزرگ شاعر کی حیثیت سے حلقہ یاراں مقبول تو تھے مگر اپنی کچھ کامیاب اورکچھ ناکام شادیوں کی وجہ سے بھی جانے پہچانے جاتے تھے ۔میرون مفلر اور اپنا سنہری چشمہ درست کرتے ہوئے دبنگ محسن وقار اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں حاضرین ِمحفل سے مخاطب تھے ۔۔۔
”۔بھئی آپ لوگ سازِعقل کے منکر ہیں اور سوز ِعشق کا میں قائل نہیں ۔۔۔۔۔ویسے صاحبو ۔۔۔اب اس دور ِجدید کاسوزِعشق۔۔اور درد ِدل سے کوئی تعلق بھی نہیں رہا ۔۔۔ایک واجبی سا رشتہ جو احساس کے ساتھ تھا وہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے ۔بہرکیف میں مبارک باد دیتا ہوں محترم صفی ابن ِعاشق صاحب کو… موصوف نے چار شادیوں اور پانچ ناکام عشق کے بعد بھی ایسا بھرپور …کسی نوجوان دل کی پہلی محبت ایسا مجموعہ کلام ”شام سہانی “لکھ کر سب کو اپنی میٹھی سی شاعری میں”” شکر بابا “” بننے کی دعوت ایسے دے ڈالی ہے جیسے یہ کوئی کارِسہل ہو ۔۔موسم بہار میں ڈھلتی عمر کی ایسی واردات ِعشق اور بیان شعری اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں ۔۔۔۔مگر صاحب کتاب کی ہمت کو بھرپور داد ۔۔
۔۔محسن وقار نے تقریب کا اختتامیہ بھرپور ظاہری خلوص سے صفی صاحب کی شاعری کو سراہتے ہوئے کیا ۔۔۔۔مگر صفی صاحب کو محسن وقار کی گفتگو ان کی ذاتی زندگی پہ گہری طنز معلوم ہوئی ۔اور شاید شکر بابا کا لقب انہیں” کچرا بابا “کی طرح محسوس ہوا۔۔سرخ ہوتے ہوئے چہرے پہ ہائی بلڈ پریشر کی تمام تر نشانیوں کے ساتھ ناگواری کے تاثرات بھی نمایاں نظر آنے لگے ۔۔۔۔
محسن وقار اپنے تنقیدی مضمون میں تنقیصی ترکش کے تمام تر تیر چلا چکے تھے اور ہشاش بشاش نظر آرہے تھے ۔۔اور متوقع ادبی دنگل کے لیے تیار بھی۔۔۔
اس سے پہلے کہ تقریب کے اختتام کے بعد گرما گرم چائے کا دور شروع ہوتا ٹی وی اینکر سندس خان نے محسن وقار سے اپنے چینل کے لیے وقت نکالنے کی استدعا کردی۔۔جسے بڑے تپاک سے قبول کیا گیا ۔۔اور محسن صاحب مسکراتے ہوئے۔۔۔۔ صفی صاحب کے متغیر جذبات سے سرخ چہرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہال سے باہر نکل گئے ۔
۔۔سر تقریب کیسی رہی آپ چائے نہیں پئیں گے ۔؟صحافی صاحب میں ان چینل والوں سے پیسے لیتا ہوں ان کی چائے نہیں پیتا ۔
سر اس مرتبہ آٹھ مارچ کا کیا ایجنڈہ ہے ؟
بھئی یہ بے چاری ان عورتوں سے پوچھو جنھوں نے ہزاروں روپے سڑکوں پر آنے کے لیے جمع کیے ہیں ۔اپنی سجاوٹ اور پلے کارڈ کی بناوٹ کے لیےبھی۔۔وہ طنزیہ مسکرائے
۔سر آپ تو سرخیل ہیں عورت مارچ کے اس مرتبہ کیا نعرہ فیورٹ ہے ۔؟؟؟
بھئی” میرا بچہ میری مرضی کرلو“ ۔۔۔ہیں
۔جی ۔۔؟؟؟۔کیا کہہ رہے ہیں سر ؟؟؟؟بھئی یہ ان عورتوں کے د ل آواز سمجھ لو جن کی مائیں اپنے بچوں کو صفی صاحب کی طرح بگاڑنے میں ان کے ابا کا ہاتھ سمجھتی ہیں ۔۔
ان کے والد محترم اولادِنرینہ کی خاطر ۔۔یا کسی اور مقصد زرینہ کی خاطر اگر ڈھائی شادیاں نہ کرتے تو صفی بھی فائیو اینڈ ہاف نہ کرتے ۔۔سر ۔۔۔ڈھائی شادی سر؟؟؟؟ ۔۔۔ہاں جو شادی خفیہ یا گھریلو ملازماؤں کے ساتھ عشق کے نام پر کی جائے وہ اینڈ ہاف ہی ہوجاتی ہے ۔۔میں اسوقت جلدی میں ہوں۔۔۔۔۔
باقی اس ٹھرکی شاعر سے پوچھ لو جس کی شام سہانی آج تک نہ ہوئی ۔۔پہلے ایسے شوگر ڈیڈی کہلاتے تھے ۔یہ خواہ مخواہ غریب شاعروں میں شامل ہونے چلے ۔۔بابا اور بالک کا گیم ہے بھئی “۔بڑبڑاتے ۔۔۔مسکراتے ۔۔۔سگار سلگاتے اور
۔۔سب کو اپنی چبھتی ہوئ باتوں سے حیران کرتے ہوئے محسن وقار اپنی لائبریری روانہ ہوئے ۔۔۔جو شہر کی سب سے بڑی لائبریری ہونے کی وجہ سے مشہور تھی ۔۔۔۔
موسم بہار کی سہانی شام سندس خان کو بڑی خوشگوار محسوس ہورہی تھی ۔۔مگروقار صاحب کے منہ پھٹ ہونے اور غیر متوقع غصے کے ممکنہ خطرات سے دل ہی دل میں ڈری ہوئی سندس خان کی بہت سی توجہ اپنے میک اپ کی تیزی بڑھانے میں دیکھتے ہوئے محسن وقار جبری مسکراہٹ سے گویا ہوئے ۔۔
سندس بی بی ۔۔۔اگر آپ صرف انٹرویو ہی لینے آئی ہیں تو میں کیمرہ مین اور اس بچونگڑے کے سامنے انڑویو نہیں دوں گا ۔۔کیو ں کہ آپ اپنی تصویر اور آئینے کو لے کر زیادہ متفکر ہیں بہ نسبت میری گفتگو کے ۔۔۔۔ایسے میں یہ باہر جائیں گے تو ماحول بہتر اور گفتگو آسان ہوگی۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ماحول انٹرویو کے لیے ساز گار بنایا جاچکا تھا ۔۔
سندس رسمی میزبانی گفتگو کے بعد دھیمے لہجے میں اعتراف کرنے لگی ۔۔ ۔۔۔سر مجھے آپ کی تحریر ز یادہ سمجھ نہیں آتی ۔۔۔
پھر کیا لینے آئی ہو بی بی؟؟؟ ۔ سر سچ پوچھئیے تو اپنے یو ٹیوب اور ٹی وی چینل کی ریٹنگ ۔۔۔؟
محسن وقار مسکرائے ۔۔”مجھے تمہارا سچ اچھا لگا ۔“۔
اب ۔سوالات کا سلسلہ شروع کیجیے ۔۔ ان کے چہرے میں چھپی سنجیدگی کہہ رہی تھی کہ اس سے پہلے کہ میں تمہارے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس کیمرہ مین کو دو دھموکے یا مکے جڑ دوں جلدی شروع کرو یہ انٹرویو نالائق حسین عورت ۔۔۔۔
اب اس نیم جنگی سےماحول میں سندس خان نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا ۔جو رسمی انداز میں ختم بھی ہوگیا ۔کیمرہ آف ہوتے ہی وقار صاحب نے سگار سلگایا۔۔۔اور الٹا سوال داغ دیا ۔۔۔۔
اورسندس۔۔۔۔۔۔ تمہارے کیا وچار ہیں گھر بسانے کے بارے میں ۔۔پینتیس چالیس کی عمر تو مغرب میں بھی شادی کے لیے آئیڈیل نہیں سمجھی جاتی ۔؟؟؟؟
۔۔سر میں خود مختار ہوں۔
اوہ اچھا ۔میرا جسم میری مرضی ۔۔۔
سرطنز کیو ں آپ تو باہر بہت سپورٹ کرتے ہیں۔اس نعرے کو ۔
تم اس جملے کا کیا مطلب کیا لیتی ہو ۔۔؟۔کہ تم سنگل رہو ۔۔تنہا رہو۔۔۔۔نسائی بدن پر نسائی اختیار یعنی A Woman, s body a woman,s choice …مغرب کا روشن خیال مردانہ سماج بھی logical۔۔۔echoتفریق کاقائل ہے بی بی اور برتری کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے ایگریسو یا ڈیفنسیو یا پروگریسو سب انداز اس نعرے کو عجب طریقے سے اپنے اپنے معاشرے میں فٹ کرنے کوشش کرتے ہیں۔۔
۔۔سر شادی کے بعد شوہر کی غلامی سے تو بہتر ہے کہ تنہا رہا جائے ۔۔سندس دکھی لہجے میں وضاحت دینے لگی ۔۔۔
۔گویا وہ تمہاری غلامی کرے تو تم خوش ۔۔۔
واہ ۔۔۔ویسے تمھیں اب شادی کرلینی چائیے ۔۔تمہیں اپنے معاشرے کے ریت رواج سے آگاہ ہونا چائیے ۔۔اکیلی عورت معاشی خودمختاری کے نام پر آوارہ گردی اچھی نہیں لگتی ۔۔۔
۔تم نے بتایا نہیں کہ تم عورت مارچ کے اس سب سے متنازع نعرے کا مطلب کیا لیتی ہو ۔؟
سر اگر ایک عورت مریض ہے وہ بچے نہیں پیدا کرنا چاہتی ۔تو اس کا جسم اس کی مرضی ہونی چاہیے ۔
۔تو وہ بیمار عورت اپنے شوہر کی دوسری تیسری چوتھی شادی کیوں نہیں کروادیتی محترمہ ۔۔یہ نعرہ تو وہ ملانیاں یا زمینی حوریں یا دیویاں بھی نہیں لگاتیں جو ان لبرل عورتوں کے مقابلے میں اپنے شوہر کو دیوتا سمان مانتی ہیں ۔گستاخی معاف ۔۔
سر میں نے آپ کی بہن بیٹی یا بیگم کو سڑک پرکبھی آتے ۔۔۔۔ عورت مارچ میں چیختے نعرے لگاتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔
۔نہیں دیکھو گی بھی نہیں ۔۔۔انہیں میری طرف سے اجازت ہی نہیں ہے ۔اف ۔۔۔مائی گڈ نیس ۔۔۔سندس کی حیرانی دیدنی تھی ۔۔۔۔اجازت؟؟یہ تو ان کا فطری جمہوری حق ہے ۔۔۔
۔سندس کو دھچکا لگا ۔۔دیکھو بی بی سب جانتے ہیں کہ میرے جیسے انٹلکچول کو اگر گاؤں کا اجڈ سسرال نصیب ہوجائے تو کیا ہوتا ہے ۔۔۔جاگیردارانہ جمہوریت اور مذہبی آمریت کا بدترین ملاپ ۔۔۔۔
سر میں تو آپ کو ایک لبرل ترقی پسند سمجھتی تھی۔۔
۔۔بی بی تمہیں میرے اس گندے سڑے کچرا پسند معاشرے میں ایسا ہی لبرل ملے گا ۔۔۔۔۔لنڈے کا لبر ل مغرب کی اترن پہننے والا ۔۔۔۔دیسی لبرل
اندر سے اپنی مٹی کی کھوکھلی اور فرسودہ کہانیوں سے جڑا سمٹا ہوا۔چقندری ۔۔لبرل ۔۔دیکھو ۔۔۔۔۔سمجھو ۔۔۔
۔یہاں جو جتنا بڑا سرمایہ دار ہے وہ اتنا بڑا منافع خور ہے
۔۔۔۔۔جو جتنا بڑا لبرل ہے وہ اندر سے وہی کبڑا عاشق جتنا بڑا ۔۔۔ملا ۔۔اتنا بڑا ۔۔حرام خور ۔۔جتنا بڑا پیشوا اتنا بڑا پیشہ ور۔۔۔ ۔یہ ادب یہ شاعری یہ عورتوں کا سڑکوں پر حق کے نام پر ناچنا ۔۔۔ڈھول پیٹنا ۔۔۔میرے جیسادیسی لبرل اندر سے برداشت نہیں کرتا ۔مغربی مشرقی قاتلانہ فلمیں دیکھتا ہوا ۔میرے اندر کا درندہ مرد چاہتا کہ سر کاٹ کر رکھ دوں ان بے وفا گھر بگاڑنے والی سب کمزور عورتوں اور مردوں کو کھا جانے والی عورتوں کا۔۔۔۔سندس سہم گئی ۔۔۔محسن وقار اسے سہما ہوا دیکھ کر بولے۔۔۔بحثیت دانش ور ۔۔۔
مجھے اپنی غیرت مندی دوسروں کے لیے قطعا مناسب نہیں لگتی مگر میں اپنے گھر کے سربراہ کی حیثیت سے کنڑول کا اجارہ دار ہوں۔۔۔میرا ہارٹ فیل ہوجائے گا بی بی ۔۔۔اگر میں اپنے گھر کی عورت کو اس طرح چیختے ہوئے ناچتے ہوئے سڑکوں پر دوسروں کے شوہروں کو نچاتے ہوئے دیکھ لوں گا آخری مارچ ہوگا میرا ۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے سلگتے ہوئے بھڑکنے لگے تھے ۔۔۔
۔کل ایک بے ہودہ کنسرٹ بھی ہے عورت مارچ کے نام پر ۔ایک بے سری واہیات گلو گارہ میرے بیٹی کے کالج میں آرہی ہے ہمارے پیسے بٹورنے ۔۔شی آئی مین مائی ڈاٹر از ناٹ الاؤڈ ٹو گو دئیر۔۔۔۔
۔یہ تعلیمی ادارے ہیں یا ہیرا منڈیاں بنانے کی تجربہ گاہیں ۔۔۔ان منافع خوروں تعلیم بیچنے والوں کو کیا نہیں پتا ہوگا کہ ان مال دار ان پڑھ جاگیر داروں سے کیسے پیسہ بٹورے جاتے ہیں ۔۔۔۔
سر آپ شاعروں کو بھی برا سمجھتے ہیں۔اور ادیبوں سے بھی آپ کی نہیں بنتی ۔۔سندس ان سے گفتگو کی نوعیت پر حیران تھی ۔۔۔۔۔۔۔
۔اس لیے برا سمجھتا ہوں کہ اپنی تخیلاتی کتابوں میں ایک دوسرے سے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا والی نفرتیں پالتے ہیں ۔۔یہ شاعر ۔اورسب سے بڑا نقصان یہ بھی کرتے ہیں کہ ان نالائق عورتوں اور نکمے لڑکوں کو شاعر بھی بنا ڈالتے ہیں جو شاعری کی الف ب بھی نہیں جانتے ۔۔۔بس جیسے شوقیہ جرنلسٹ اور ویسے ہی وہ شوقیہ شاعر۔۔شاعری استادی ہے محترمہ انہیں استاد بننا پسند نہیں تو یہ شاگرد بھی بنانا نہیں جانتے بس سیدھا دیوان بیچ ڈالا۔اور شاعر چور ہونے الزام بھی لگا نے میں دیر نہیں کرتے ۔ٹٹ پونجیے کہیں کے ۔عہدے رتبے کے بغیر ایک شاعر کی مشاعرے کے دنگل میں شرکت ہی بے کار ہے فی زمانہ ۔۔کبھی مغرب کا ادب پڑھ کر دیکھو ادب شاعری کیا ہوتی ہے۔یہاں شاعری کی زمینیوں کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے ۔۔۔۔
سر اب آپ مغرب کا حمایتی دانشور بن گئے ۔۔۔۔یعنی فیشنی سرخوں فیشنی ملحدوں کی طرح فیشنی لبرل ۔۔۔؟؟؟
۔۔واااہ مجھے تمہاری اصطلاحات کے بارے میں درست معلومات اچھی لگیں ۔وقار صاحب طنزیہ مسکرائے ۔۔۔بحث سے فضا بوجھل ہورہی تھی ۔۔
۔ہاں مجھے ان کا ادب پسند ہے مگر میں اپنے فرسودہ رواج میں اسے اپلائی نہیں کرسکتا ۔۔
سر میں بآسانی کہہ سکتی ہوں کہ آپ کے اندر وہی ملا چھپا ہوا ہےجس سے اقبال نے پناہ مانگی ۔۔
اقبال ؟؟؟اقبال جیسے مفکر مغرب میں روز پیدا ہوتے ہیں یہاں صدیوں میں ایک آدھ ۔۔۔۔ویسے
تم مجھے ملا کیوں سمجھ رہی ہو ۔اس لیے تم مرعوب ہورہی ہو مجھ سے ۔۔۔ پہلے انسان کسی انسان کے اندر کے مذہب کی مار سے متاثر ہوتا ہے پھر انسان کے اندر کے پیار سے ۔۔۔سندس الجھتی جارہی تھی ۔۔شام گہری ہونے کے بعد رات میں ڈھل چکی تھی لائبریری کی روشنیاں ایک لمحے کو بجھیں پھر جگمگائیں ۔سراپنی لائبریری میں ایک شوٹ کرنے کے بعد ہمیں اجازت دیجیے ہاں ہاں ضرور ۔وسیع و عریض لائبریری میں دو سہمے ہوئے نوجوان نکلتے ہوئے دیکھ کر وہ حیران ہوئی وہ حلیے سے دیہاتی لگ رہے تھے ۔سر یہ کون؟؟ ۔یہ وہی کمینے ہیں جن کے باپ ہونے کاغم مجھے کھا جائے گا محسن وقار ۔زیرلب بڑبڑائے ۔سر صبح آٹھ مارچ کے جلو س میں ملاقات ہوگی ؟؟۔۔۔ہاں ہاں میں جاؤں گا دیکھو ریل گاڑی جب تک اسٹیشن پر کھڑی رہے تو اس کے پہیے باسانی نظر آتے ہیں اور جب پوری رفتار سے لائن پر دوڑنا شروع کردے تو پہیے ہیولے بن جاتے ہیں مگر ابلاغ جاری رہتا ہے ۔اور رہنا بھی چاہیے ۔۔۔میرے تخیل کی گاڑی کا ابلاغ جاری رہنا چاہیے ۔۔میری کتابیں ان کا سرمایہ ہوں گی ۔اس گھر کی گاڑی کا سرمایہ ۔۔
اور آٹھ مارچ کی بادلوں میں چھپی صبح کو سندس خان نے نعرے لگاتی پلے کارڈ اٹھاتی عورتوں کے درمیان محسن وقار کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں عجیب تکلیف میں مسکراتے ہوئے دیکھا ۔وہ خواتین کی حمایت میں تقریر کر رہے تھے۔۔اچانک چپ ہوگئے ۔۔سندس نے دیکھا ۔پنڈال میں وہی دو سادہ لڑکے جنھیں محسن وقار کی اولاد ہونے کا حق حاصل تھا ایک سادہ دیہاتی عورت اور دو چادروں میں لپٹی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ داخل ہوئے ۔۔۔ کیمرہ مین کے ذرائع نے یعنی گھر کے نوکر نے ٹیم کو چپکے سے بتایا آج صبح بیگم سے لڑ کر آرہے ہیں اندر سے سخت گیر جاگیر دار آدمی ہیں باہر سے بس وہی دیسی لبرل ۔سنا ہے اپنی بیٹی کو گاؤں کے بڑے بوڑھے زمیندار سے بیاہ رہے ہیں ۔ان کی تین بہنیں عمر ڈھلنے پر گھر بیٹھی ہیں ۔کوئی رشتہ قبول نہیں کرتےاچھا اور کوئی ڈھنگ کی بات بتاؤ ۔۔یہ تو محسن وقار کی فیملی لگ رہی ہے نا ۔یہ ان کے بیٹے ہیں ۔۔۔عورت مارچ میں ان کی بہو بیٹیاں؟؟؟؟ ۔۔۔سندس خان بریکنگ نیوز کی تلاش میں تھی ۔تقریر بند ہوچکی تھی ۔محسن وقار خشک پتے کی طرح زمین پر گر ے پڑے تھے ۔محسن وقار کو ایک گھونگریلے بالوں لڑکی والی رومال سے ہوا دیتی ہوئی نظر آئی ۔۔ابو جان ابوجان سنیے تو سہی کیا ہوا آپ کو ۔ماحول میں شور تھا آوازیں تھیں ۔ایک زقند میں زندگی رنگ بدل چکی تھی ۔محسن وقار کی آواز شور میں دب چکی تھی ۔۔۔۔ ان کی حرکت قلب بند ہوجانے کی خبر کسی کو افسردہ کررہی تھی ۔اور کسی کو حیران ۔اور کوئی صفی صاحب کی طرح طنزیہ مسکرا بھی رہا تھاکہ آخری مارچ تھا بے چارے کا ۔۔۔وہ بھی عورتوں کی خاطر عورت مارچ میں ۔۔۔شام ڈھلنے تک سندس خان نے اپنے چینل پر ایک سادہ سانولی سی عورت جس نے چہرہ سیاہ کڑھائی والی چادر سے چھپایا ہوا تھا ۔
کے تاثرات نشر کرکے ایک ملین ویوز لائکس حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرلی تھی دکھی سی مسکراہٹ کے ساتھ سندس خان سوچ رہی تھی ہر ایک انسان ہر ایک کہانی اور ہرایک افسانہ اپنا اچھا اختتام چاہتا ہے ۔۔اور محسن وقار کی زندگی کی کہانی کا اختتام ہوچکا تھا ۔۔اچھاتھا یا نہیں دیکھنے والے سمجھنے والے فیصلہ کریں گے ۔۔مرحوم کی شریک حیات ڈبڈبائی آنکھوں سے کہہ رہی تھیں ”۔میں اس اچانک صدمے پر صرف اپنے شوہر کی کتابوں کے چاہنے والوں سے کہنا چاہوں گی کہ میرے گھر سے ان کی ساری کتابیں لے جائیں کسی مستحق یا سکول کالج یا کسی کو بیچ دی جائیں یہ بھی ممکن نہیں تو پھر سمندر میں پھینک دی جائیں تاکہ ہمارے گھر میں ہمارے سکون سے رہنے کی جگہ بن سکے ۔۔۔