
دکان ِ گریہ ۔۔۔ سلیم کوثر
”دکانِ گریہ“
سلیم کوثر
پُوچھنے والے! تجھے کیسے بتائیں آخر
دُکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
.
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دِکھائیں تجھ کو
تُو نے پُوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
.
یہ کوئی راز نہیں جس کو چُھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چَھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈَھلک جاتا ہے
.
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دُکھ ہے
جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تَھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اُٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیے چپ چاپ چلا جاتا ہے
.
کبھی خود سے کبھی رستوں سے اُلجھتا ہے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رُکتا ہی نہیں
ڈُھونڈنا ہے نیا پیرائے اِظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
.
دِل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فُسوں قریۂ جاں ٹُوٹتی ہے
اِک تغیر پسِ ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹُوٹتی ہے
.
تُو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے مُعطر ہے حیات
تُو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقصِ جُنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیّر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے مِلتا ہے
.
اِس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسُوس کرو گے تو پتہ چلتا ہے