نظم ۔۔۔ سلمان حیدر
نظم
سلمان حیدر
میں تمہارے علاوہ کسی سے بے وفائی نہیں کر سکتا تھا
میں نے تمہارے علاوہ
کسی سے محبت نہیں کی
میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا
سوائے اس راز کے
کہ کئی بار محبت کم پڑ جاتی ہے
ہم اپنا آپ ایک دوسرے کے اندر انڈیل کر بھی خالی تھے
سو میں نے کہانیاں تراشیں
جن میں تم نہیں تھیں
تاکہ تم انہیں سن سکو
اور نظمیں لکھیں
جن میں راستہ چلتے چہرے جھلملاتے تھے
جنہیں تم آتے جاتے دیکھ سکتی تھیں
میں نے تمہارے ذہن میں سوال بوئے
اور انہیں رت جگوں کا پانی دیا
میں نے تمہارے خواب کارنس پر رکھ دیے
تاکہ وہ گر کر ٹوٹ جائیں
میں نے تمہاری خواہشیں گرد آلود کتابوں میں دبا دیں
اور ان کے بد رنگ ہو جانے کی ذمہ داری وقت پر عائد کی
میں نے تم سے سچ بولے جو جھوٹے تھے
اور جھوٹ چھپا لیے جو سچے نکل سکتے تھے
میں نے تمہیں خود پر عائد کرنے کے لیے الزام فراہم کیے
اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے خاموشی اوڑھے رکھی
میرا جرم تمہیں میسر نہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھا
اور اس کی تلافی میرے خود کو دستیاب ہوئے بغیر ممکن نہیں۔۔۔