
اک دھاگہ غف دل سے ادھڑتا بھی نہیں ہے ۔۔۔ ثمین بلوچ
غزل
ثمین بلوچ
وہ شخص سلیقے سے بچھڑتا بھی نہیں ہے
اور وصل کی بانہوں میں جکڑتا بھی نہیں ہے
دل محو خرابات ، جنوں خیز سہی ,پر
متروک رسومات میں پڑتا بھی نہیں ہے
جب آنکھ ملے خود میں چھپے عکس دروں سے
پھر ذات کا پھیلاؤ سکڑتا بھی نہیں ہے
مجھ جسم کے سب بخیئے ہوئے چاک مگر کیوں
اک دھاگہ غف دل سے ا دھڑتا بھی نہیں ہے
میں خاک کے سینے یہ پلا پیڑ ہوں ایسا
سر سبز ہوا ، جو کبھی سڑتا بھی نہیں بے
ہے سوچ کے پردوں پہ کوئی رقص کناں جو
وہ عکس مری آنکھ میں گڑتا بھی نہیں ہے
اس لمس کے رشتے کو تو میں آگ لگا دوں
دل بستا نہیں ، جسم اجڑتا بھی نہیں ہے
Facebook Comments Box