راج کرے گا کون ۔۔۔ سمیع آہوجہ
دو بھینسیں اور دو ہی بیل،کھیت سے لوٹنے کے بعد لہنا سنگھ کے باپ گرو دتّے نے گُتاوا جو توڑی ،شٹالے کا کُترہ ،تیل نکالے ہوئے بیجوں کی کَھل ،دادڑچنے کی دال ، ایک چھلّی سِٹے سمیت ،تھوڑا بہت بنولہ دودھ گاڑا کرنے کے لئے ،صبح کے نکالے پانی ملے دودھ کی دو چار گڑویاں، اور زمینوں پر اُگایا ہوا موسمی سبزے کا آمیزہ ،کھرلی میں ملا کر اُن چارو ں کے آگے ڈالا تو گرو دتّے کی بیوہ بھابھی پیتل کی مانجھی ہوئی لِشکارے مارتیں دوولٹوئیاں لے کرآپہنچی ،بھوری کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو لہنا سنگھ کے نام کی زور آورجَھوٹی گردن گھما کر اُس کی گردن پر زُبان پھیرنے اور پھرڈکارنے پروہ اسے بھی تھاپڑا دیتے دودھ دوہنے بھوری کے نیچے بیٹھ گئی اور تھنوں پر پانی کے چھینٹے مارتی ،دھوتی جَھوٹی کی طرف دیکھتے ہنسی، پیاری چھوٹی پہلے بھوری کو دُوہ لوں پھر تیری باری ہے۔ اور علیحدہ علیحدہ نکالا دودھ ہانڈیوں میں چولہوں پر چڑھا کر ،دونوں کے اُبلنے کے انتظار میں پِیڑی پر بیٹھتے ہی صحن کو دیکھا ۔تو لہنا ،سیاہ داڑھی موچھ کی روئیدگی میں کِھلتاگورا چِٹاچہرہ، اپنے چاچے گرو دتّے کا بے انت لاڈلا ،اور اُس کا اپنا بیٹاکرتارا۔ وہ تینو ں ڈیگر والے کھانے سے فارغ ہو چکے تھے ۔اور باقی لہنے کی ماں کاکی اوروہ خود رہ گئی تھی ۔بس کاکی ذرا دودھ کو اُبالا آجائے تو میں آتی ہوں۔اور پُتر کرتارے یہ چھوٹی ہانڈی ٹھنڈی ہو جائے تو گُر سبھا میں پہنچانی ہے ،بے بے پتہ ہے مجھے،روز کا کام ہے ،تُو پھر بھی سر پر سوار ہو جاتی ہے ۔لہنا بھی ساتھ ہی چِلایا مَیں بھی ساتھ ہی جاﺅں گا، کیوں نہیں ، نانی کے لڈو یاد آرہے ہیں ۔ویسے تو تم روز ہی جاتے ہو،مگر پھر بھی جب جاﺅ تو بڑی ماں کو بھی میرا سلام کہنا اور کہنا کہ کیرتن والے دن مَیں کاکی کے ساتھ ضرور آوں گی۔مگر کہلوانے والا سندیس بھی کیسا ؟ دو قدم پر تو حویلی میں سجی گُرسبھا ،جو کاکی کے پڑدادا کو امرتسر کے گرنتھی کی طرف سے مسند عطا کی گئی۔ جہاں متھا ٹکواتی،گرنتھ پاٹ کاپریم سبھاﺅ سُجھاتی،اور گِڑگڑاتی سکھ چین کی چھت سر پر قائم ودائم رکھی رہنے کے لیے سر کی چادر کے دونوں پھیلی باہوں پر پڑے پلو کو بھر دینے کی آرزو مند ۔یہی حویلی گُرو دِتّے کا سُسرال تھا ،جہاں وہ صبح گرنتھ صاحب کو متھا ٹیکنے ضرور جاتا ،اور گھر کی دونوں عورتیں روز تو نہیں مگرہر دوجے دن وہ گرنتھ پاٹ میں شامل ہو جاتیں۔۔
برسوں پرانی چلی آتی رِیت تھی کہ رات بھیگنے لگتی تو دادی ،یا نانی یا اُس سے بھی بوڑھی عورت کو بچے گھیر کر بیٹھ جاتے ،اور کرید کرید کر پیچھے بیتی کو کتھا روپ میں کان دھر کر سُنتے ،اور مانجھا اور مالوہ کی لہو رنگی یہی رِیت و رہتل جاٹوں کی مختلف گوتوں کی آماجگاہ تھی ۔ایسی ہی بھیگتی رات میں جب ٹھنڈی ہوا کادریا سے اُٹھا پہلا جھونکا آتا تو لہنا سِنگھ اور پڑوس کے دوچار بچوں کے سنگ کرتارے کے ساتھ دودھ بھری ہانڈی کو لئے دو گلیاں کے موڑ پر پہلا گھر گُر سبھاکی چوکھٹ پر پہلے متھا ٹیکتے اور پھر دہلیز پار کرتے ،یہ ہی کاکی کا میکہ بھی تھا ۔بابا کے مرنے کے بعداب تو گرنتھی داس اُس کا بڑا بھائی ہی تھا ۔اور اُسی گھر میں تین عورتیں گرنتھی داس کی بیوی اور اُ س کی چھوٹی سی دودھ پیتی بچی ،اور پھر اُس کی بوڑھی ماں اور بوڑھی دادی ،اِتنی بوڑھی کہ جس کے چہرے اور باہوں کا گوشت بھی لٹک آیا تھا ،سارے بچے لہنے کی نانی سے ایک ایک بوندی کا لڈو اور میٹھے چنوں کی ایک لَپ کھاتے اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے اور اُس کے پوپلے منہ سے نکلے،مٹھاس بھرے، نچڑتے الفاظ ،اُن کے اندر جاگزیں ہوجاتے رہے ۔اور وہی الفاظ اُس نے بھی اپنے بڑوں سے سنے ۔اور یہی شنیدنی اُس کی اپنی رت سے نچڑ کربچوں میں سوچ کے لمحات بیدار کردیتی ۔۔
اور سارے بچے مُغل شاہی افواج کو دل ہی دل میں لعنت ملامت کرتے ،اپنے بزرگوں کے گھوڑوں کی راسیں پکڑے، گُرُو کے فوجی دستوں کے ہم رکاب ،جانیں تو وہ ننھی سی تھیں مگر پھر بھی وہ جذبے جوش میں بھرے ، اُسے ،ہتھیلی پر رکھنے کی آرزومیں تیرتے،بس اسی لمحے کے چُبھتے چھیدتے شبدوں سے بَنے زخموں کی پرداخت سے بنی ایک یخ میں ڈوبی آہ نکلی ،اپنی جد کو گُر منتروں میں ہلار ے دیتی پلٹی اور بچوں کی توجہ کوپھر سے سوچ کی راہوں پر لا کھڑا کیا۔
پہاڑوں کی چڑھائی چڑھتے ،تلاشِ گُورومیں بلندیوں کی سنگلاخی کو چھلنی میں چھانتے، مغل فوجوں سے خونی تصادم کے بعدمیں جدّ،جو گرو کی ہمرکابی میںہی چپکا رہا تھا ۔اُس کی مدت مدید تک کوئی خبر ہی نہ ملی اور جب پہاڑوں سے کسی تصادم میں گورو کے آوازے پر اُس کے قُربان ہونے کی خبر اُتری توجدکی اولادمیں قہر بھری جولانی جاگ اُٹھی، دونوںکی دیوانی سُوجھ بُوجھ گھوڑوں اوراسلحے کی خرید کے لےے، کھیتوں کی چھاتی کھول کر ملاپ کرنے کے لےے کِھل اُٹھی ، اور امرتسر کے نواح میںتقریباً گیارہ میل سنہری گردوارہ سے جنوب میں گرو ارجن کے ترن تارن میں بنائے تالابِ نجات سے مِیل بھر نیچے، اچھی بھلی زمینداری جاٹ بزرگوں کے وقت سے چلی آتی تھی اور یہ بھی نہیں تھا کہ اُس کا کوئی ٹکڑا خراب ہو، بڑی ہی زرخیز زمین تھی ۔کنوئیں کا پانی تو وافر تھا ہی لیکن جیسے بارش کا ایک چھینٹا پڑتا تو ہریاول سر نکالے لہلہاتے واہی بیجی والوںکے وجود وں کو ان گنت سُروں کی چُلبلاہٹ سے مست کر دیتی ۔جد کے باپ نے سنہری گردوارے کی تعمیر کے لےے اپنی آمدن کا دسواں حصہ گورو دکھشنا کے نام پر گورو کے حکم بموجب ہرفصل کی آمدن سے نکالتا۔اور جِسے وہ سنہرے گوردوارے کے کھاتے میں امرتسر میںبساکھی کے میلے پر جمع کراتا رہا۔لیکن جہانگیری حکم ِشاہی سے گورو ارجن کا قتل اور سارا سِکھی اثاثہ جس پر کوئی سرکاری حق نامہ نہیں لکھا تھا ضبط ہونے پروہ دل ہی میں مسوساپِیلتے رہ گئے ۔گورو ہرگوبند کے حکم پر وہ گھڑ سوداگروں سے نسلی گھوڑے سال کے سال خریدتے اور گرو دھکشنا میں سنہرے گردوارے کے حساب میں جمع کرتے رہے۔سرکاری مالیہ بھی گورو کے فرمان کے مطابق دل پر کڑا جبر کرکے جمع کراتے رہے کہ محاصل کی ممنوعات کے لےے اُن کے اورشاہی مُغل افواج کے درمیان ابھی لکیر نہیں کھنچی تھی اور نہ ہی سِکھی دربار نے کوئی حکمی سدّ کھڑی کی تھی۔
مگرموسمی حالات کی کِسے خبر ہوتی ہے،سیلاب کی منہ زوری میں ساری کھڑی فصل برباد ہوگئی ۔اپنے گاﺅں کے کھیت مزدوروں کو آدھی پچاتی اپنی کوٹھیوں میں سال کے دانے دُنکے میں سے حصہ دار بنانا پڑگیا، جو انہوں نے دل خوشی سے تسلیم کیا ۔ مگر سرکاری محاصل کہاں سے دئیے جاتے،پنجاب کے چغتائی حاکم دارا شکوہ نے تو سیلاب زدہ علاقے کے محاصل معاف کردیے مگر شاہ جہان کو شاہ جہان آباد کے قلعے اور مسجد کی تعمیر میںجلدی تھی ۔محاصل زبردستی سے وصولنے کا حکم نامہ جاری ہوا ۔اور گرو ارجن پر جہانگیر کا عائید کیا ہوا جرمانہ بھی ابھی وصول کرنا تھا ،بس اسی جرُمانے کے ساتھ گوروہر گوبند کی افغانیوں کے ہاتھوں فوجی تربیت کے اجتماع پر بغاوت کی پخ لگاتے تصادم شر و ع کردیا۔آس پاس کے کئی ایک دیہاتوں کے جنگی اسیروں کے قتل کے بعدلاہوری قصابوں کے ہاتھوں بوٹیاں بنانے کے عمل نے اک ایسی آگ بھڑکائی کہ لہنا کی گوت کی ابتدائی لڑی گور و ارجن کے قتل اور گورو ہر گوبند کے مسند پر بیٹھتے ہی سکھی پرستاروں میں شامل ہوگئی اور پھر خبریں فوجی تصادمی جمگھٹے میں پیوست ہوگئی تھیں ۔ شاہی فوج سے تصادم میں گورو کے فرار کی راہ کھولتے ہوئے جان قُربان کرنے کی باری آئی تو اُس وقت لہنا کی لڑی کے جد امجد نے اُس پر لبیک کہتے حلقوم پر چُھری پھروالی ۔جد امجد کے دونوں بیٹوں میں سے بڑے نے ہل بیجی کے زور پر اپنی زمینیں ہریاول میں تبدیل کر ڈالیں اور چھوٹے نے گھوڑوں کے سوداگروں سے کانٹا لگا لیا اور اچھی نسل کے گھوڑوں کی کمر یا گردن پر ہاتھ پھیرتے پہلا ملکیتی تھاپڑااُس کا ہی ہوتا ،اور وہ مول تول کرتے گورو کے حکم بموجب اُسے خرید کر سنہری گوردوارے پہنچا دیتا ،آخر سنہری مندر کے لےے اپنی آمدنی کا دس فیصد دینا دونوں کی دین داری ہی تھی نا ۔
گرو ارجن کے قتل اورجلیان والے قتل عام کے بیچ ڈھائی پونے تین صدیوں کا فاصلہ حائل تھا ۔مگر سِکھی دودھ میں اُس وقت بے وقت مغل شاہی کے ہاتھوں جو خون بہایا گیا ۔وہ گروﺅں سے بندھے سِکھی قول و قرار کی ڈوروں میںپرویاذہن کا ہارسنگھار ہوگیا۔ مندروں میں جاٹ برادریوں کے آتے چڑھاوے کا رُخ سنہری گردوارے اور گرو استھانوں کی جانب پھرنے سے ،مال و دولت کے شدید بھوکے پنڈتوں کی درس وتدریس میں آگ لگ گئی اور اُنہوں نے بھڑکتے ہندوںکو سکھوں پر ہشکار دیا ۔اور مسلمان ۔؟
مغلوں کے پایہ¿ حُکمرانی کو بِلا فصل اپنا ہم مذہب جانتے،!
مسلمانوں کے اسی رویے کی بدولت انتقام کی آتش ،مقاومت میں لپپٹتی چلی گئی ۔ اور بوڑھی پڑدادی، پڑ نانی ،اور دادی نانی کی آہوں سنگ نکلتی بدعائیںآنے والی نسل کے خون میں ایسی اُتریں کہ ساری سِکھی بارہ مثلیں ،ہندوں اور مسلمانوں سے ،سنہری گردوارے کی بنیاد پڑتے ہی ، اُن کے سرکاری رویے کے سبب پہلے ہی سے سخت منحرف ہو چُکی تھیں ۔ اور جب ابدالی نے سنہری گردوارے کو لوٹ لاٹ مسمار کرتے ، امرت تالاب کو بھی گھوڑوں کی لیداور رخنے بند کرتی زمینی رال کے آمیزے سے ایسا پاٹ ڈالاکہ زمین سنگلاخ ہوگئی ۔اُس زمان کے مسلمان چاہے وہ افغانی تھے یا مقامی دیو بندی مسلمان،انتہا پسندی کی راہوں میں حائل ہونے والے ہر جی دار کو اپنے رہوار کی ٹاپوں تلے قیمہ کرتے ، زندگی گزارنے کے تمام مذہبی اور معاشرتی اصولوں کو فراموش کرواتے قتل ،لوٹ ماراور غارت گری کے شکنجے میں پھانسے رکھتے تڑپنے پر مجبور کرتے ،اُن کی افغانی درندگی میں رچی، پلتی رَت کوکیا لگے کسی قانون کو محترم بنانے کا ، وہ تو مذہبی احکامات کی تمام تر خُو کو اپنی مرضی مطابق گھڑتے ۔ احترام کا ساراقضیہ تو مدتوں پہلے ہی لشکری ادوارِ اُمیہ میںہی بزورتیغ قبرستان میں دفن ہو چُکا تھا۔اگر وہ مذہبی محترم اصولوں کا لڑ پکڑے ہوتے تواِس غیر انسانی سلوک سے دور رہتے۔ اُن کے مذہبی قواعد میںسے ایک نمائندہ اصول کہ دوجے مذاہب کی عبادت گاہو ں کا احترام کریں اوراُن میں کسی قسم کی دست اندازی نہ کریں ،مگرکسی بھی ماتھے پر محرابی نشان نمایاں کرنے والوں کی غیرت جاگی اور نہ ہی کِسی مدافعت کا واویلا اُٹھا، اور تواور۔؟ افغانی یا دیو بند مسلک مسلمانوں کو تو میاںمیر صاحب کی سنہرے مندر کی حُرمتی بنیاد تک یا دنہ آئی ، بابے کی کُٹیا تک تار تار کرتے ہوا میں اُچھا ڈالی۔ اگلی نسل کے کانوں میں پڑتی ٹُھکتی میخوں کی پیڑااِسی غم گلوٹھی میںاُسے تڑپاتے ،بلبلاتے دماغ سُن کر دیتے۔ اتنا ظلم! سکھ ان کے ساتھ کسی جنگی امداد میں سینہ سپر نہیں ہوئے تو دُکھ کی کیا بات۔ !
رنجیت سنگھ کا زمانہ آیاتوسنہری گردوارے کی مسمار حالت کو دیکھتے اُس کی ہی غیرت جاگی اور اُس نے سنہری مندر دوبارہ بنایا اور امرت تالاب کوبھی دوبارہ جار ی کیا۔
اوراسی سوچ بچار کے بَل اُٹھا اُس کا قدم ،کیا گروہی انداز میں کسی پل کسی نے اس دُکھ درد کو محسوس کرتے سوچا؟شاید سوچا بھی ہو ،جس کی ہم تک خبر نہ پہنچ سکی ،لیکن اب ہم ملکر سوچنے پر مجبور ہیں۔ آخر سکھوں کا فرنگیوں کے ساتھ دست پنجہ کِس صف میں لپیٹ کر دفنایا جائے۔اور تفصیل کے مدفن خزانے کی کیسے نشان دہی ہو۔؟
لہنا کی نسل کے وجود میں شدید نفرت اور۔؟
اسی سے پھوٹتا سوچ و بچار کا اک نیا چشمہ ۔۔؟
جلیانوالا باغ کا وحشیانہ فرنگی درندگی کے ہاتھوں قتال ۔۔!
لہنا سنگھ کاپوتا،بلبیرسنگھ ،اک نوجوان سکھ ۔!
اُس کی خالص گردوارے میں پلی سوچ میں اک گہری دراڑ پڑگئی ۔کہ رنجیت سنگھ کے امن و امان کے چالیس سالہ دور کے بعد سکھوں کی فرنگیوں کی خدمت کا صلہ کیا ملا۔؟اِسی جان فشانی اور اتنی اہم کاری کے سبب پنجاب میں فرنگی قدم جم سکے۔اُس کے صلے میں ملا کیا۔؟ اک لمبی غارت گِری ،اور پھر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں جیالوں کی شکست کے بعدہر اک نیٹو اُن کی نظر میں مطعون ،اورپھر اسی بل بوتے پرمحکوموں پر مسلط کیا گیا دہشتناک فوجی راج ،ساری سوچ و فکر کو تہہ تیغ رکھے یکے بعد قتل و غارت اور سولیاں،اور اس درندگی سے نیٹو کے لہو سے نہائی شمشیریںاپنے انتہا پرپہنچیں،جب جنرل ڈائر کے حکم نامے پرآگ میںجلتا ہوا جلیانوالہ باغ گورا سپاہ کے کمیلہ¿ ٹامی میں قصابی اسلحے کے زور سے مقتولوں کی کٹتی بوٹیوں سے ایک عشرہ بعد خوف و ہراس میں ملفوف خبر جب لہناسنگھ کی آنے والے نسلی پوتے کے کانوں میں پڑی تو پھر ایک لمبی سرد آہ ، مگراسی میں لِپٹا سوالوں کا ملغوبہ کہ مجرموںکا شکار کِیسے کر یں۔۔؟
چاروں طرف اُڑتی دُھنی روئی ،اور الزمات کا انبار،گورے کے شدادی ہاتھوں کے قہر افلاک سے کڑکتی، گِرتی جلاتی ،بے حرمتی کے منظر نامے کی ساری شکل رو نما ہو ۔مگر بے بس ہاتھوں اور نظروں کی چھان بین غوطے ہی کھاتی رہی ،کچھ بھی تو گرفت میں نہیں آیا ،بیچارگی سے ساری سعی اور جرا¿ت پژمردہ۔ مگرجب ان ہی پژمردہ لمحوں کے شاہد بوڑھوں کی بیانیہ اُن کی خشک اکڑی زُبان سے اُبلی توقربان گاہوں کو پھرولتے عشرہ ہی گزرا تھا، غریب بستیوں کی آتش زدگی اس لےے ہوئی کہ چڑیا گھر کے لےے جلیانوالہ باغ کی نواحی غریب جھوپڑ پٹی ،غریب مرد اور عورتوں کی باہم محنت سے اُساری ، بسائی بستیاں شہر کے میئر کی حاکمانہ حویلی کے چہرے پر اک بد نما داغ تو تھاہی ،مگروہ میئرجنرل ڈائر کے شہوت بھرے عاشقانہ کندھوں پر سوار تھا ۔اُس کے ان بستیوں کی مسماری حکم نامے کے مقابل احتجاجی انبوہ جو اپنی بستیوں کے گھیراﺅ، جلاﺅ، کٹاﺅ، اوران کے مسمار کرنے اورخوبصورت پرندوں چرندوں اور درندوں کا چڑیا گھر بنا کر محل نما حویلی کے چہرے پر لگے داغ کی صفائی کے لےے حاکمانہ نظروں میں تذلیل کیے جانے کا وقوعہ تراشاگیا ۔جنرل ڈائر کی معشوقہ¿ دلنوار فرنگی گوری ،میئرِ شہر کی بیٹی تھی،پس اُس کے اغوا اور جبریہ بے حرمتی کا الزام بہت بڑا سبب بنا،جنرل ڈائر کی آنکھیں قہر سے اُبل پڑیں،اور جلیان والا باغ کا واحددروازہ بند کرتے ،امن امان میں اپنی بستیاں اور گھر بچانے کے لےے احتجاجی جلسہ کرنے والوں پر ڈائر کے حُکم سے فوجیوں کا کُھلا فائر،لاشوں کے انبار لگ گئے ،راہِ فرار کی چھوٹی سی گلی ، دہشت سے نکلنے والے اک دوجے کو کچلتے نکلے باہر سڑک ،زمین سے لگی ناک ،اور سینے کے بل رینگتی مکروہ سیاہ فام چھپکلیاں ،اور اوپر برستا گذرتا گولیوں کا طوفان ، ذرا سا سر بلند ہونے پر موت کودعوت اور جو باقی بچے ،وہ روبروقہر برساتی کرسی نشین باز پُرس کی شعلہ فگار آنکھوں میں سوال اُبلے تو کیسا۔۔؟
بس مانگے جواب۔۔؟
مگرجواب کی پیہم مروڑی سن سُتلی گانٹھ میں پیہم آہ و بکالپیٹتی تصویر ظاہرہوئی۔۔
مگر تصویر کیسی۔۔؟
آگ میںجلتا جلیانوالہ باغ روبرو آکھڑا ہوا،لا تعداد بند وقفوںمیں سچ انگنت مجبور و مہجور لوگوں کی چیخ و پکار میں ظاہر ہے۔اور جھوٹ کا قہر ٹوٹے توبیتاب سزاﺅں میں لپٹا ،جھوٹ کو سچ بناتا، فرنگی سرکار کے تفتیشی کرسی نشین افسرکاچیختا چِلاتااونٹ حلق،اس سے نکلتی بِلبلاہٹ میں مجرم قرار پاتے ،لوگوں کی سہمی نظروں پرنفرت بھری لاسا لگاتی قہر آنکھیں گھات میں نشانہ باندھے گرجتے برستے ،مسلط ہوا فرنگی قانون ،سر پر تنا آسمان ، اسی قانون کے جُثے سے ٹپکتا گرجتا برستا اپنی پرکھ کا آویزاں ترازو ،بھاری پلڑے سے نکلتے دفعات کے دفاتر میں بغاوت لکھی گئی۔۔!
ہینگ ٹِل ڈیتھ۔۔!
کیا سولیوں کی قطار آئی گنتی میں ۔۔؟
تصویر ی چوکھٹے سینوں میں آویزاں،اس میں چِت اور پَٹ دونوں کا فیصلہ بلا دلیل گُناہ تھوپتے فردِ جُرم عائد کرتا،کرسی نشین ایک لاٹھی پرے تین قطار ،چوتڑ چوکڑی پر براجمان بندوق بندنیٹو سپاہ کی گھنی حفاظتی باڑ،اُس کے عقب میں حاکم اعلی ،بازار چودھری، باز پُرس ،جسٹس ،اور گولیوں کے برسانے کا رفتار پیما صوبیدار میجر اور سار ا ہی کچھ یک جان کُرسی نشین میں مدغم ،اور فردِ جُرم تلے پِستے افراد کا اک انبوہ بیکراں،سینے او ر پیٹ کے بل لیٹے ،سروں سے گزرتی گولیوں کی بوچھار مانندِ مُور و ملخ زمین میں ناکیں گُھسیڑے اپنے دم توڑتے ڈھیر ہوتے ساتھیوں کی نعشوں سے پہلُو بچاتے سینے کے بل بلا تکان سرکاری سڑکوں کی خُشک اینٹوں پر مسلسل رینگتے، اور جو آتی جاتی سانسوں میں ہونکتے، باقی بچے ،وہ کڑے پہرے میں مضبوط سلاخوں کے پیچھے بند ، ہمیش خالی رہتے دریچے سفید اور کھچڑی ڈاڑھیوںکی خُشک آنکھیں،باز پُرس کو اک خون چوسنے و الے کیڑے کی ماہیت میں تبدیل کرتے اور کداتے گھوڑوںکی ٹاپوں سے قیمہ کرنے کی قصاب جبلتوں بیچ خون آشامی کے دہن سے ٹپکتے لہو میں غُسل کی آرزو۔۔
مگر یہ ہے بڑے حوصلہ مندی کی بات۔۔
مگر دُوجی کٹھن راہیںتو اپنے بیان میں کچھ اور ہی کہتی اورکچھ اور ہی دُھنتی ہیں۔؟
مگر لہنے کی اگلی نسل نے سوچ بچار کرنے کی راہ میں حائل کھتوئی آخر نکال ہی لی ،اک سکھ نے جس کے متعلق فرنگی کہتے رہے کہ گھڑی غلط ہو سکتی ہے ،سِکھ نہیںتو۔ ۔؟
مسند نشین گُرداس کو بھی اس کی سمجھ بوجھ نہیں تھی ۔وہ تو یہ سمجھتا تھا کہ سکھوں اور فرنگیوں کے دست پوشی ہوجانے کے بعد جو کچھ بھی ہے سِکھو ں کے لےے اچھا ہی ہوگا۔سَروں کی فصل بہت کٹالی ۔۔!گِردو نواح کے جاٹ سِکھ اور دوجی مثلوں کے سکھوں کے زرعی محاصل سرکار نے نصف کر ڈالے ،مگر پھر بھی سوال تو اُٹھا اور جہاں سِکھ کی سوئی اٹک جائے ،حلق کھنگورا مارنے سے صاف نہیں ہوتا ،جب تک بلغمی گولی تھوکی نہ جائے۔۔
اور اسی چلتر فرنگی راج نے مرا¿ت یافتگی کے ہنر سے اپنے خیرخواہوں کے گلے میں ڈلا پٹا اور انہار سازی کی بنی زمینوں کی آباد کاری کے لےے ،یہ عطیہ سکھوں ہندوﺅں اور مسلمانوں میں بانٹا گیا گھوڑا پال کے نام سے۔۔!
کالج میں عمومی سیاسی حالات نے یار دوستوں کا اکٹھ اک گروہ میں تبدیل اور اس کا بنایا ہواچھوٹا سا گروہ ،آخر کِس کھوج پہ پہلے ہاتھ ڈالے ۔سوالوں کا اک انبار ۔۔؟
آخر یہ کیسی محویت کا عالم ہے کہ جوسوچ بچار کے تمام لمحات کو ویران کر گیا۔ہر اک شخص کی مجبوری کہ اس کے ہاتھ ہی میں کِسی بھی ڈور کا سرا نہیں آتاتھا ۔۔!
بات ساری پانچ سات راہوں پر تقسیم ہو گئی ہے ۔
رولٹ قوانین جو مجموعہ تھا دو قوانین کا ،انڈین کریمنل لاءایمنڈمنٹ ایکٹ اور انڈین کریمنیل لاءایمرجنسی پاور ایکٹ جو فرنگی جج سر ڈزنی رولٹ کی سر براہی میں لجسلیٹو کونسل نے ایک کمیٹی کی سفارشات کے مطابق منظور کیے ۔جو ہندوستانیوں کے لےے دودھاری تلوار تھا۔کیونکہ اُن کے خیال کے مطابق نومبر انیس سو سترہ میںروس سُرخ پرولتاری دو دھاری تلوار تھا۔ پرولتاری نظام کا لبادہ اوڑھنے اور سوویت یونین بننے سے وہ ان کے لےے زارِ روس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگیا تھا ۔ فرنگی تھنک ٹینک کواس غلام دھرتی سے پرولتاری اُگ آنے کا اندیشہ کلبلا رہا تھا ۔مگر ساتھ ہی جنگ کے دوران پُر تشدد اورانگریزی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے خواہش مند انقلابیوں کی کاروائیوں کا بھی سدِباب کرنا تھا جو بنگال ،پنجاب اور ہندوستان کے دوجے علاقوں میں شروع تھیں ۔ان قوانین کے بل بوتے کسی شخص کو بھی بلا کسی وجہ اور تشریح کے بنا گرفتار کر کے غیر محدود مدت تک نظر بند رکھا جا سکتا تھا ۔ مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بدولت اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا ہوگئی تھی ۔ان قوانین کے نفاذ پر مہاتما گاندھی نے ستیہ گر مزاحمت کا اعلان کیا ۔دلّی میں یومِ احتجاج کے جلوس پر گولی چلا دی گئی ۔اور اس پر پنجاب میں لاہور کے علاوہ وسطی پنجاب میں بھی احتجاجی ہڑتالیں اور جلوس نکالے گئے۔ گاندھی کو انتظامیہ نے متھرا سے نکال کر بمبئی چھوڑ دیا ۔لاہو میں شدید احتجاجی جلوس نکالنے پر پولیس نے ہائی کورٹ کے سامنے اُن پر گولی چلا دی ۔پھر لوہاری میں گولی چلی ۔اور اگلے روز شہر میں فوج نافذ کرکے جگہ بجگہ فوجی چوکیاں بنا کر دہشت پھیلا دی ۔شاہی مسجد کے پاس فوجی چوکی کے حاضرہ فوجیوں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لےے گولی چلا دی ۔لیکن۔۔؟
لیکن بلبیر کے شہر امرتسر میں ۔۔؟
بندوق گولی کی خونخواری میں لِپٹی سرکار کے چھاونی کی آفزائش میں جا بجافوجی چوکیوں کے انڈے بچے دے ڈالے ۔اور سیاسی لیڈران یعنی سیف الدین کِچلُو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کر لیا ۔شہر بھر دکانیں بند لورمکمل ہڑتال ہوگئی اور ایک اچھا خاصا بڑاجلوس اپنے لیڈروں کی رہائی کے لےے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کی طرف نعرہ زن ،چل پڑا ۔پولیس راہ میں مزاحم ہوگئی اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لےے گولی چلا دی ،ہجوم میں بھگدڑ مچ گی اورمنتشر ہجوم واپسی کی راہ پر پھر اکٹھا ہوگیا ۔غصے سے بپھرے ہجوم نے نیشنل بینک اور الائیڈ بنک کی عمارتوں کو آگ لگادی اور چار یورپین افسران اور ایک مشنری عورت کو ہلاک کر ڈالا،اور ٹیلیگراف کی تاریں توڑدیں ۔امرتسر کے سرکردہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا اور ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی ۔مگر تیرہ اپریل کو بیساکھی کے موقعہ پر امرتسر کے مشہور باغ جلیانوالہ میں ایک احتجاجی جلسہ تقریباً بیس ہزار کی نفری سے منعقد ہوا ۔تو ایریا کمانڈر جنرل ڈائر پچاس انگریز اور ایک سو نیٹو سپاہ کے ہمراہ وہاں وارد ہوگیا۔ اور بغیر کسی وارننگ کے گولی چلوا دی ،باغ کے چاروں طرف دیواریں کھنچی ہوئی تھیں اور آنے جانے کے لےے ایک ہی دروازہ تھا ۔یعنی فرار ہونے کی ساری راہیں مسدود،چاروں طرف کی عمارتوں میں پناہ لیکر انگنت لوگوں نے جانیں بچائیں ۔فوجیوں نے مسلسل دس منٹ تک فائر کھولے رکھا ۔ جس میں سولہ سو پچاس گولیاں چلائی گئیں ،اور اس وحشت ناکی کا دوردورا اُس وقت تمام ہوا جب فوجیوں کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں۔انگریز ی سرکار کی رپورٹ کے مطابق تین سو اناسی افراد ہلاک اور بارہ سو زخمی ہوئے ۔لیکن کانگرس کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور سیوا سمتی نے تو پانچ سو لاشیں گنتی کیں۔ اور اُسی شام سارے پنجاب میں افغان وار کا واویلا کرتے مارشل لا لگا دیا گیا ۔امریکی جرنلسٹ کے بقول اِسی واقعہ سے غیر مُلکی تسلط کے ختم ہونے کی بنیاد پڑ گئی ۔لیکن نہ صرف یہ واقعہ وجہ بنا بلکہ اٹھار سو ستاون کی درندگی کے جو زخم نہیں بھرے تھے ، کئی بار جا بجاپھٹ پڑے ۔
لیکن نانی پڑ نانی اور مسند نشین کے دل میں تووہی مغلوں والی تباہی کابم لگا ہوا تھاجو گاہے بگاہے منفجر ہوتا رہا۔اور شایداسی بدولت اٹھارہ سو ستاون کی جنگ دِلّی میںانگریز فوجیوں کے ہاتھوں نکل گئی تھی لیکن سکھ اور چند ایک پٹھان پلٹنوں نے اُن کے ہاتھوں نکلتی جنگ جتوا دی تھی ۔اور پنجاب کی فرنگیوں سے چار جنگوں میں سکھی سالاروں سے گٹھ جوڑ کرکے ہاری ہوئی جنگ جیت لی ۔پھر مراعات یافتگی کا اک طوفان کھڑا کر دیا۔
اب اگر ابتدائی نیشنلسٹوں کی سعی اور جدوجہد کے تجزےے میں اٹھارہ سو ستاون کے متحاربہ ولولے کو دیکھیں تو سکھی مسند شناسوں کی نا سمجھی کا اک روپ ظاہر ہوجائے۔
جن کے جگرے میں گوری فوج سے چھٹکارا پانے کی اُمنگ روشن ہو، وہی اُس آتش ِ فشاں تک پہنچاتے اُس گنجلک زمان کے بند کھولتے ہوئے مکالمہ کرتے ہیں۔ اور یہ ہی لڑی ،پولیس لاٹھی چارج میںچھوٹو رام کے قتل پر نئی جہت میں بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں میں کِھلتے مہکی۔ معمول کے مطابق کاروبارِ حیات سے فارغ ہوتے ہی سِر شام اُن کی جمتی سبھا ۔کمپنی باغ کے درختوں کی گھنی اوٹ میںنجانے کب سے روشنی کی شمع روشن کرنے کی آس میں ،چوکڑی جمائے،لہنا سنگھ کی اگلی نسل کا اک بیٹا اپنے کیس سمیت ،ایک چھوٹاسا ہم خیال جتھابنا بیٹھا،جن کی عمر یںتابناکی سے نکلتی ڈھلوان پر آکھڑی ہوئی تھیں ۔۔!
ہوسکتا ہے کہ یہ اک ہراول دستہ ہو جس کی بھر پُورنمو بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں تک پہنچ کر اپنے عروج پر پھوٹی ہو ،یا یہ درمیانی زمان کا کٹھ جوڑ ہوکہ جن کے سینے آزادی کی دلداری میں شعلہ فگاں۔۔
بلبیر اورچند نفری گروہ ۔۔
اس گرو ہ میں پانچ سکھ ، چار ہندو،سات مسلمان اور چار شودر۔۔
زمینی رشتے میں وہ سب ذات پات کے جنجھٹوںسے بے نیاز ،اس عہد وپیمان میںبندھے کہ جو کٹنے اور فکر کرنے کے انکڑے میں پھنسنے سے گھبراتا ہو ،وہ بلا شبہ اپنی پناہ گاہ کی جانب پلٹ جائے ۔وہ سب توپنجاب کی چھاونیوںکااحوالِ پھرولتے ہر اک چھاونی کی پناہ میں مخفی گوری پلٹن اور نیٹو کی فوجیوں کا مالکانہ اور غلامانہ رویے میں اٹھارہ سوستاون کو اُجالتے، سرکار کی احسان مند انہ چڑھاوا لکھت نویس دربار ی،اپنی تعریف اور لکھتے اور مقامی آبادی کو جہل کی مہر سے کندہ نقش نگارِ زدہ ِ غلامی چولے میں اُتارتے ،اسی میں سے وہ سارے اصلی راہ کھوجتے۔مگر یہ راہ تھی بڑی کٹھن ۔ابھی تو اس ہنگامِ اٹھارہ سو ستاون کی تفہیم سرکار ودربار کی ڈھول پیٹتی ،درد انسانیت کی گمراہ کُن پرچارک لکھت سے منسلک ہے، مگرباریک بینی سے چھان پھٹک کرنا تو اِن سب کافرض۔۔!
اس کاسر پیراُنہوںنے ضلع امرت سرسے ہی ٹٹولنا شروع کیا،کیونکہ چھاونی کی بغل میں چھوٹا سا فوجی یونٹ جو کمشنرکے احکامات کا دستِ نِگرتھا،وہی مرکزی شہر میں متعین۔۔!
قلعہ گوبند گڑھ کی چھاونی میں ہندوستانی پلٹن نمبر اُنسٹھ کے ستر سپاہی شک شبہے کی تنور میں دہکتی آنکھوں کے بل دُھتکارتے ہتھیار لے لےے گئے۔اور اُن کی جگہ گورا پلٹن نمبر ایک کے اکیاسی کے سپاہ مامور کیے گئے۔اکتیس جولائی اٹھارہ سو ستاون۔ میاں میر چھاونی سے چھ سو سپاہ کا بھاگا ہوا گروہ بمقام بال گھاٹ آپہنچا،اور زمینداروں سے پایاب راستہ پوچھا ۔ فرنگی کے سنگ بندھے قول و قرار کے سچے اور مفادات کی سانجھے زمیندارسانپ کے بل داری شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے ،انہوں نے انہیں باتوں میں پھانس کر پانی پایاب ہونے کے لےے انتظار کرنے کو کہا اورساتھ ہی ایک آدمی کو پورے معاملے کی تفصیل کے ساتھ تحصیلداراجنالہ کے پاس روانہ کیا ،تحصیلدار نے تحصیل و تھانے کی سپاہ نفری کےساتھ وہاں کا رُخ کیا ،لڑائی میں انہیں اُلجھا کر ایک سوار کے ہاتھ ڈپٹی کمشنر امرت سر کو خبربھجوائی ۔ڈپٹی کمشنر اسّی سواراور اکسٹرا اسسٹنٹ سردار جودہ سنگھ کے ساتھ وہاں پہنچ گیا ،مگر صاحب کے آنے سے قبل ہی ایک سو پچاس باغی، تحصیل داراور زمینداروں نے مل کرمار گرائے،اور باقی ماندہ دریا کے بیچ ٹاپو میںگِھر گئے۔ دوسرے روز توپیں آ پہنچیں، اور وہ سب توپ کے گولوں سے مارے گئے باقی بچے پیتالیس نفر وہ بھوک سے مر گئے ۔ د وسو ستتربے ہتھیارمفرور جو زندہ فرنگی گورا فوج کے ہاتھ آگئے وہ توپ سے اُڑائے گئے،اور ساتھ ہی قلعہ گو بندگڑھ کی بے ہتھیارہندی پلٹن کے سپاہ کا نام و نشان مِٹ گیا ۔ہر ایک کے خانوادے کی بھی کوئی خبر باقی نہ رہی ،اور وہ سارے ،پُرانی بوڑھی یاداشتوں کی لائبریریاںپھرولتے ، قتال کی لہو سے بھری جمی ہوئی چاٹی، پھر سے رڑکنے بیٹھے ہیں ۔دیکھیں کب سُچل جوہر نکل آئے ۔۔
مغل دودھ اور خون سے جوان ہوا بابر اپنے ہی عزیزوں کے ہاتھوں مار کھاتا ، سمر قند کی حکومت گنواتا آ پڑا ہماری زمین پر حاکمیت کی لالچ میں، ساتھ ہی توپ تفنگ کاقہر ہمیں پلاتے ، لکھت تو معجون میں حل ،تاکہ پینے والوں کے اندر بے حسی کا نشہ مغز میں بسیرا کرے اور فرنگی مظالم احسانات کا روپ دھارے۔لیکن کہنے والوں نے نصیحت کی،اور جواُس چھوٹے سے جتھے نے سُنی ۔۔
اب آپ اِس گم شدہ کُتھلی سے نکلی بپتا کا کونے کھدرے کھولتے مکالمے میں سر پٹخاتے، جاننا اور سننا ہی چاہتے توکان دھر کر سنیے ،مگر ہماری آنکھوں کی چمک کی راہ کھوٹی نہ کی جیئے گا۔۔
مگر اندھیری سنگلاخ راہ کے رخ پرمنزل کا اشارہ ہاتھ اُٹھا کرتے ،اور نظروں کا ٹھٹھااطراف میںپھراتے،گھورتے وہ اپنی روشن فکری کی گٹھڑی کی چاروں گانٹھیں کھولتے غرائے۔۔؟
اب اس جوہڑی منجمد خون کو بھول جاﺅ،اب اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا ۔دانشمندوں نے اپنے جواہر قلم سے بہت پہلے ہی سچ سوجھ سوجھڑے کی تصویر کشی کر ڈالی تھی۔۔!
لیکن ہم اس انجماد کے پِگلاﺅ کوجوہڑ نہیں سمجھتے ۔۔
ہر اک گھرانے کا ٹپکا لہو،جو کچھ بھی تھا جیسا بھی تھا ،وہی کچھ فرنگی سرکار نے اپنے انصاف اور قانون کے بَل پر چُھپایاتو چُھپایا کیوں؟۔بس اُسے ہی کرید کر نکالنا چاہتے ہیں،شاید اسی سے ہماری اپنی راہ نِکل آئے۔مگر اے پُرسان حال کے دعوے دارو! اپنے ہی لکھے میںمختاریت کی ستم گری تو آپ بھول گئے۔اب حوصلے سے دیکھو ،اور ٹٹولوکہ پنجاب کو مقبوضہ¿ فرنگی بنانے میں کیا کچھ ہوا تھا۔۔؟
خورد سالہ دلیپ پسرِ رنجیت کو خود ہی نام وناموس کے کھولتے خون کو ٹھنڈا کرنے کے لےے تخت پر بٹھایا اور پھر وقت کی بیڑیاں پہنتے خود ہی معزول کرنے کی رسم لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل کے ہاتھوں اٹھارہ سو انچاس میں ادا ہوئی اور وقوعہ پذیری کی لکھت اپنے مرضی کے لفظوں میں بُن ڈالی،اور پورے علاقے کی ضلعی درجہ بندی کرتے ،کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے پلُّو میں باندھ دیا ۔اور مقاومت کرنے والے سکھوں کے ہتھیار ڈلوانے کے باوجوداپنے عیارانہ ذہن میں سے اک شُرلی نکالی اور بے اعتباری کی مہر لگا کر پورے پنجاب کے لوگوں سے امن عامہ کے نام پرہتھیا ر بندوں کی تعداد لکھوا تے ،کرنجی آنکھوں کی لپیٹ میں لےے رکھا ۔فوجی یونٹوں کے علاوہ ہر ضلع میں چھوٹی بڑی چھاونیوں کا جال بچھا دیا ۔اور اپنے مرا¿ت یافتہ سکھ جرنیل جو عین فتح پر جنگ سے علیحدہ ہوئے ،اُن ہی سکھ سرداروں کی بدولت فتح کا طبل بجا،جن میں مہاراجہ نابھہ، مہاراجہ پٹیالہ،مہاراجہ کپور تھلہ،ضلع فیروز پور ، اور بہت سے دوجے راجگان ،اور ضلع جالندھر سے لے کر اٹک تک کے سکھوں کی دلی نفرت دھونے کے لےے مرا¿ت سے حلق بھر ڈالا ،مسلمان برادریوں کے کلیدی سرداروںکوبھرتی کے لےے سپاہی اور گھوڑا پال کے نام پرجاگیریں عطا کیںاور سِرکاڈھے مسلمانوںکو سستے داموں زمینیں بیچیں اور ہندو بانیوں ،ساہوکاروں کو بھی جاگیریں تعویض کیں اور ان کے ذمہ بھی وفادار سپاہ مہیا کرنے اور گھوڑے پالنے کا دُم چھلہ باندھ دیا ۔
اب بولو۔!
سکھی بارہ مَثلوں کے سردار و۔؟
جی،جِجمان کرتے تمہارا تو ہو گےا بولو رام ۔!
اب بوجھو بجھارت تاکہ آنکھ میں چڑھا نشہ اُترے۔۔
ایک دو دس ،پیپل کی توڑی نس ،بنگلے کا توڑا تالا ، تُو گِن لے پورے بارہ ۔۔
مگر پو بارہ سمیٹتی ،لیجاتی سرکار کے گماشتوں کے گھر کی لونڈی تھی ۔نہ صرف وہ سردار بلبیر سنگھ اوراُس کے چھوٹے سے گروہ کا ہر نفر،گروہ میں دِل وجان سے شریک کار ہونے کے باوجود ا پنے آپے میںتنہا تھا۔ کیونکہ فرنگی مخبروں کے منکر نکیرکندھوں پر براجمان،
خفیہ پرچہ نویس سچ لکھے یا جھوٹ،ایک دہشت اِن کی ،اوردوجے انعام و اکرام کی لالچ میں بِکے دوجوں کو اسی ترغیب میں سانس بیچنے والوں کی تیغ حلقوم پر ٹِکی رہتی،ہر کوئی اپنے آپے کو غیر محفوظ سمجھتا،اور گروہ کے ہر اک نفردوجے کو پوشیدہ آنکھ سے مشکوک چھلنی میں چھانتا رہتا۔۔ !
اب سوچنے کا مرحلہ آپ کی گود میںپڑا سوالوںکے ہلارے لے، کہ ہر اک تنہا،یعنی مَیں!کیسے گنوں، میری تو قبر کی ہونے والی مٹی بھی روندی گئی ،والی وارث کاشباب ہی مٹی کاڈ ھیر،اُسے کولی میں بھر کر ریڑھ کا ستون ہی مسمار کیا جا چُکا،تو باقی کیا بچتا؟ شباب میں دِن دھاڑے کی لُوٹ سے ،مقطر شراب سے مست الست خونخوار مچلتے ہاتھ،تندی¿ بادِ مسموم کی ہوسِ سے اُٹھے، پھر اُلٹے انگرکھے تلے وجود پرپِھرتی پھرکی شہوت لبریز انگلیاں،وہی وجود اب مٹی کا ڈھیر۔۔!
غدر کی دہل گورنر جنرل لارڈ کیننگ کے رعونت بھرے ایام میںگونجی ۔اور دیسی فوج کے اندر تک اُترے تیور وں میں پِگھلتی ٹھاٹھیں مارتی رعونت کے بل پھٹ پڑی ۔لیکن شاید چیف کمشنر سر جان لارنس کے اندر اپنی ہی فرنگی رعونت کے احساس سے بغاوت کا خوف بھی سرایت کر گیا تھا۔اسی کی بدولت سکھوں پر اعتبارنہ ہوتے ہوئے بھی راجہ پٹیالہ کی ضمانت پر ایک بھاری فوج بھرتی کرلی اور اسی فوج میں کچھ تعداد افغانیوں کی بھی شامل کر لی گئی تھی،تاکہ اونچ نیچ کی خبر داری رہے ،اور اسی سِکھ فوج کی بدولت دِلّی پر قبضہ قائم رہا ورنہ بے دریغ گاجر مولی کی طرح لوگوں اور مقاومت کرنے والی گورا فوج کی گلی کوچوں کے عوام کی تیغوں اور دیگر اسلحے یا جس کے ہتھے کوئی ہتھیار نہ آیا، وہ لکڑی لاٹھی لےے پِل پڑا اور گورا سپاہی کی اتنی دُھنائی ہوئی کہ وہ انتہائی بِیدّل پسپا ہو تے ،لاشیں گرواتے کشمیری دروازے تک پہنچ چُکے تھے ۔۔
میرٹھ کی آتش زدگی اور تصادم کی خبروں نے ضلع فیروز پور چھاونی میںایسی آگ بھڑکا دی کہ چودہ مئی کو نیٹو فوجیوں کی پیتالیس اور ستاون نمبرپلٹن کا بیشتر حصہ باغی ہوگیا ،چھاونی کے مکانات اور افسروں کو موت کے گھاٹ اُتار ڈالااور چاہا کہ قلعے کے میگزین پر قبضہ کرلیںمگر گورا پلٹن برگیڈیر کی پلاننگ کے مطابق میدن میں ایسی اُتری کہ قلعے کا میگزین جو سات ہزار بارود بھرے ڈرم اور دیگر میگزین کے دوجے بڑے سٹور اُن کی حفاظت کی بدولت بچ گئے۔،نیٹو سپاہ ایسے ہی اپنے محدود چھینے ہوئے ہتھیاروں کے بل آگ اور خون کی ہولی کھیلتے دلی کی جانب بڑھے تو پلٹن چودہ اور دس شمارے کا رسالہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ لیکن پیچھے انتقامی گواہوں کے پرچے پرڈپٹی کمشنر نے بلا کوئی مقدمہ چلائے ،باغیوں کے ہمدردوں اور مدد گارو ں کو سولیاں گاڑ کر پھانسی دے دی ۔
میرٹھ چھاونی کی للکار نے لودھیانہ کی چھوٹی سی لشکر گاہی کوبھی بغاوت کے اکھاڑے میں اُتار لیا۔ آگ انگار اور قتل و مقاومت کی لہرہندی سپاہ میں بلند ہوئی تو ڈپٹی کمشنر چوکنے ہوگئے اورمقامی سپاہ اور شہری انتطامیہ سے ہتھیار مانگے تو جواب انکار کے ساتھ ہی اُبل پڑا ۔ افسرانِ ضلع کے گھر پھونک ڈالے،گرجا گھر اور پادریوں کے مکانات بھی راکھ کا ڈھیر بنا ڈالے اور ڈپٹی کچھ بھی نہ کر پائے ۔جب باغی سپاہ دریا پار اُترے توفلورکے مقام پرپڑاﺅ ڈالے تیسری ہندی پلٹن بھی اُن کے ساتھ شریک ہوگئی،ڈپٹی کمشنر اپنے وفادار ہندی سپاہ کو لےے مقابلے پر اُترے ،مگر پہلی جھڑپ پر ہی اُن کے وفاداربھاگ کھڑے ہوئے ۔راجہ نابھہ کی فوج بھی راجہ کا حکم ماننے سے انکاری ہوگئی ۔صرف کپتان روتھنی کی پلٹن چار کے سکھ سپاہ اُس کے ساتھ لگے رہے ۔جس میں زخمیوں کی کافی تعداد ہم رکاب تھی ۔لیکن باغی تواس مڈ بھیڑ کے دو روز بعد دِلّی نکلتے چلے گئے ۔لیکن بعد کی تحقیقات جو جھوٹ سچ کا عدالتی میزان لٹکائے رکھنے کے دعوےدار،بِلا کسی منصف کے شہریوں سے پچپن ہزار دو سو چورانوے روپے جرمانے میں وصول کرتے ہوئے، بائیس افراد کو سولی پر لٹکا دیا ۔۔
اب ایک منظر نامہ ضلع جالندھر کا بھی کھولا جائے۔مئی سن اٹھارہ سو ستاون کا معرکہ دہلی کی خبریں پہنچنے پر بلا کسی مقامی وقوعہ یا حادثے کے، ڈپٹی کمشنر مسٹر فرنگٹن کا ہندی فوج سے اعتبارِ فرمابرداری اُٹھ گیا ۔اور مقامی انگریزوں سے مشورے کے بعد فلور قلعہ کا خزانہ تیسری پلٹن سے محفوظ کر نے کے لےے،انہیں روزینہ کے خرچے دینے کے بعدتمام خزانہ قلعہ پھلور منتقل کرتے اور بھاری ہتھیار لیتے ہوئے انہیںدریا کے کنارے بناے گئے کیمپ میں منتقل کیا ،مگر وہ توخزانے کی نگہداشت چِھن جانے پر ہی بے اعتباری کی مہر زدگی پربھڑک اُ ٹھے،رات کو جا بجا آگ لگنے لگی اورساتویں روز آگ بجھانے والے افسر کو بندوقوں کے بٹ مارمار کر موت کے گھاٹ اُتار ڈالا ، روز اول سے ساتویں روز تک متواتر گوروں کے بنگلے اورگارد جلتی رہی اور کوئی نہ کوئی افسر یا جو بھی گورا ہتھے چڑھتا قتل کر دیا جاتا ۔ڈپٹی کمشنر نے جالندھر کا توپ خانہ اورقلعے کی دو توپیں مزید گورا فوج کے حوالے کر ڈالیں۔تمام گوری آبادی کو شہر کی تحصیل میں منتقل کرکے بھاری اسلحے سے لدی گورا پولیس پلٹن کے قلعہ نما حصار میں محفوظ کر دیا ۔ان ہی ایام میں راجہ کپور تھلہ چھ توپوں ،دوسو سواروں اور ایک ہزار پیدل فوج کے ساتھ آشامل ہوا ۔اُسی روزکُل ہندی فوج سوائے توپ خانہ کے باغی ہوگئی۔ رات کو ایک حصہ ہوشیار پُور نکل پڑا اور دوسرا بڑا حصہ دِلی کی جانب نکل لیا۔تعاقب میں آٹھویں گورا پلٹن،چھ توپیں ،اور پولس فورس رات بھر اپنے کیمپ سے نہ نکل سکی ۔آٹھ بجے صبح شدید گرمی میںنکلی اور ڈپٹی کمشنر کپور تھلہ کے ڈیڑھ سو سپاہ کو ساتھ لےے بمشکل بھگواڑہ تک پہنچی جب کہ باغی فوج فلور جا پہنچی اور اس قلعہ کی محافظ ، پلٹن تین ،وہ بھی آنے والے باغیوں سے مِل گئے اور کشتیوں کے ذریعے بڑی آسانی سے دریا پار کر گئی ۔لودھیانہ کے ڈپٹی کمشنر کی زیر دست فوج سے مکمل جنگ کُھل گئی ۔اور تعاقب میں آنے والا جنرل،کشتیاں نہ ہونے کے سبب وہ صرف جنگ دیکھتا رہ گیا اور باغیوں نے لودھیانہ قلعے پر قبضہ کر لیااور جیل سے سب قیدی آزاد کر ڈالے ۔دسویں جون کوجنرل کی معیت کی گورا فوج نے دریا پار کیا ۔ باغی قلعہ خالی کرچکے تھے۔مگر گورا فوج بمعہ جنرل تھکے ہارے گرمی میں بُھنتے موضع دھن سے واپس لوٹ گئے او ر باغی دلّی کی طرف نکلتے چلے گئے۔ تھکے ہارے جنرل نے اپنا تمام غصہ پلٹن تیتیس اور پینتیس ہند پرفلور کے مقام پر ہتھیار رکھوا کرنکالا ۔۔
لاسکی پردِلّی کی خبریں سُنتے ہی ضلع ہوشیار پُور کے ڈپٹی کمشنر ایبٹ نے تحصیل کو فوجی طرز پر مستحکم کیا، فرنگیوں کی عورتوں کو دھرم شالہ بھیج دیا ۔آٹھ سو نئے فوجی سفارشِ راجگانِ ہندی رکھ لےے،راجہ آلووالیہ ،راجہ رجواڑی ، راجہ منڈی اور ٹوانہ کی فوج اور پولیس پلٹن اس حفاظتی بندوبست پر لگا دی گئی۔ماہ جولائی میں قیدیوں نے بلوہ کیا تو پانچ کو پھانسی دے دی گئی اور باقیوں کی زندانی مدت بڑھا کر قلعہ بجواڑہ میں بھجوا دیا۔
ضلع کانگڑہ میں بہت سی ریاستیں ہونے کی بدولت دریا کے تمام گھاٹوں پر نئے فوجی لگادیے گئے، کلّو میں رائے ٹھاکر کے اشارے پر گیان سنگھ کی مخالفت میں بلوہ کرنے والے ایک شخص کو پھانسی اور سولہ ہمکاروں کو قید کرلیا گیا،اور مطیع فوج نے بحکم ڈپٹی کمشنر قلعہ نور اور کانگڑا پر ہندی سپاہ سے ہتھیا رکھوالےے،اور دو نوں قلعے خالی کروالیے،یہ ہندی فوجی اس پر بھی نہ بھڑکے اور دم بغاوت کے آخرتک مطیع فرنگی سرکار رہے۔
لاہورمیں تیرہ مئی اٹھارہ سوستاون کو خبر پہنچی کہ ہندی فوج لاہور کے قلعہ میں محفوظ خزانہ اور وافر میگزین پرقبضہ کرنے ا ور چھاونی کو روند نے کی تیاری پرہے۔
یارو ۔؟
بتاﺅاب یہ خبر جیسے ہی بد طینت جاسوسوں نے گھڑی ،اس کا متمع نظرسوائے اعتماد کو بھٹکا کر اپنا اُلُّو سیدھا کرنا تھا۔جس کا نتیجہ اور کشت و خون کِس کے سرچڑھے ۔لالچ میں سرتاپا غرق، رالیں ٹپکاتے افراد کے سر، اور کِس کے سر۔!
تیرہ مئی یعنی خبر والے دن ہی اکاسی پلٹن کی تین گورا کمپنیاںقلعہ میں پہنچیں اور ہندوستانی مامور فوج کوقلعے سے بیرکوں میں بھجوادیااورتمام فرنگی زن اور مرد اور بچوں کو قلعے میں رہائش کے لیے بلا لیا ۔اور ہندی سپاہ کوپریڈ گراونڈ میں پہنچنے کا حکم ہونے پر جب وہ وہاں اکٹھے ہوئے تو اکیاسی گورا پلٹن اور توپ خانہ اور پنجاب پولیس نے گھراﺅ کر لیا اور توپیں بھر دی گئیں اورہتھیار رکھوانے سے پیشتر توپ خانے کو حکم ہوا کہ ہتھیار ڈالنے پر پس و پیش ہوتو انہیں توپوں سے اُڑا دیا جائے۔حکم سنتے کسی رد و کد کے بغیر ہتھیار ڈھیر کردیے،سواروں نے تلواریں پھینک دیں۔اور پھر بحکم ،سب فوجی کسی حیل و حجت کے بیرکو ںمیں چلے گئے ۔اگلے روز ہی میاں میر چھاونی کی ایک پلٹن کے بھاگ جانے کی خبر سارے فوجیوں میں سرا¿یت کر گئی۔ جنہیں مرا¿ت یافتہ زمینداروں نے پکڑا اور وہ توپ دم کر دیے گئے۔اور باقی ماندہ ہندی فوج جو بھاگنے کے لےے تیار تھی گورا پلٹن کے آنے کی خبر سُنتے ہی بیرکس میں گُھس گئی ۔ چھبیس جولائی کو بے ہتھیار پلٹن نے میاں میر چھاونی میں بغاوت کردی میجر سپنسر اور ایک انگریز اور دو ہندو افسروں کو مار کر بھاگ کھڑی ہوئی۔مگر یہی مفرور فوج امرت سر کے ڈپٹی کمشنر کے ہمراہی سپاہ کے ہاتھوں مار ڈالی گئی۔اِسی دورانیے میں انتظامیہ کو خبر ملی کہ شہر میں پانچ سو کے لگ بھگ انقلابی فقیر اور درویش شہر میں آگھسے ہیں اور شہریوں کے ورغلائے جانے کا خطرہ ہے تو انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے حکم سے انہیں گرفتار کرکے سولیوں پر لٹکا دیا۔
ضلع گورداسپورمیں بغاوت کے وقت اُنسٹھ نمبر کی ہندی پلٹن کا کچھ حصہ اسی ضلع میں تھا ۔اُسے ڈپٹی کمشنر نے کمک کے طور پر امرت سر بھجوادیا اور خزانے کا سات لاکھ روپیہ سکھ پولیس کی حفاظت میں وہ بھی امرت سر بھجوادیا ۔جس قدر گارد اور پہرے دار ہندی فوج مادھو پور اور کارخانہ شاہ نہر تھے اُن کو ڈیوٹی سے ہٹا کر بیرک پابند کر دیا گیا ۔پلٹن نمبر چھیالیس اور نو نمبر کا رسالہ جنہوں نے سیالکوٹ میں فرنگی اطاعت سے منہ موڑا اور دِلّی جانے کے لےے اس ضلع میں داخل ہوئے ۔اُن کی راہ روکنے کے لےے چھ توپیں کپتان برچیر کی ماتحتی میں دےے گئے اورگورا پلٹن نمبر باون کے چھ سوفوجیوںکے علاوہ تازہ فوجی رنگروٹ اور سکھی رسالہ ساتھ لگادیا گیا ۔کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر لاہور بھی ساتھ ہی تھے ۔باغی تریموںگھاٹ علاقہ شکر گڑھ دریائے پار کر رہے تھے کہ فرنگی فوج راہ روک کر کھڑی ہوگئی ۔نو نمبر رسالہ نے توپ خانے پر حملہ کرکے چند گولہ اندازوں کو بھی قتل کر ڈالا اور پھر چھیالیس نمبر پلٹن اُن کے ساتھ آپہنچے اور اتنی شدت سے حملہ کیا تھا کہ قریب تھا کہ فرنگیوں کی ساری توپیںچھن جائیں ۔مگر گورا فوج سنگینوں کے بل حملہ آوروں پر پِل پڑیںاور باغی پسپا ہوگئے۔کچھ باغی بھاگ گئے اور باقیوں نے ر اوی کے جزیرے پر پناہ لی جہاںسیالکوٹ سے لوٹا ہوامال جمع کر رکھا تھا۔سولہ جو لائی کو فرنگی فوج نے توپ خانے سے حملہ کیا تو بے شمارباغی دریا میں ڈوب گئے اور کافی تعداد بھاگتے ہوئے مارے گئے اور زندہ پکڑے گئے قیدیوں کو توپ دم کر دیا گیا ۔
ضلع سیالکوٹ میں بغاوت کے ایام میںواک کے ماتحت سوار توپ خانہ ،کپتان بوچر کے زیر دست فرنگی توپ خانہ ،باون نمبر پلٹن ، نو نمبر کا ہندوستانی سپاہ کا رسالہ ،پینتیس نمبر کی ہندی فوج کی پلٹن ،چھیالس نمبر کی ہندوستانی پلٹن اور توپ خانہ ،ستائیس نمبر کی گورا پلٹن ،پیسٹھ نمبر کی ہندوستانی پلٹن ۔جب گردشی لشکر کو ترتیب دیا گیا تو ہندی فوجیوں کی پلٹن نمبرچھیالیس اور دائیں اور بائیں بازو کے ہندی فوج کے نو نمبر کے رسالے کے علاوہ تمام فوج شامل کی گئی۔برگیڈیر برناڈ کی خواہش تھی کہ انڈین سولجر کے ساتھ کوچ نہ کیا جائے بلکہ ہتھیار لے کر انہیں لائن حاضر کر دیا جائے ۔مگر اس پر کسی آفیسر نے غور نہ کیا ۔نو جولائی اٹھارہ سو ستاون کو ہندی فوج نے سیالکوٹ میں بغاوت کر دی ۔جس سے ضلع بھر کی حکومت معطل ہو کر رہ گئی سواروں نے برگیڈیر پر حملہ کرکے اُسے مار ڈالا ۔ڈاکٹر کو اُس کے خانوادے کے ساتھ مار ڈالا ۔کپتان یشب برگیڈیر میجر قلعے کے سامنے گولہ لگنے سے مر گیا ،پادری بمعہ اپنے خانوادے ماراگیا ۔باقی انگریز چھاونی سے بھاگ کرراجہ تیجا سنگھ کے ایک قلعے میں جا چھپے۔باغیوں نے جیل کھول کر تمام قیدی رہا کر دیے ۔اور تمام خزانہ لوٹ لیا ،دفاتر اور کچہریاں جلا دی گئیں ۔صبح سے دوپہر تک باغی سیالکوٹ چھاونی کو آگ و خون سے نہلاتے اور دوپہر کے بعد گورداس پور روانہ ہوگئی۔اور ان راوی کنارے مارے جانے فوجیوں کے سیالکوٹ کے باسیوں کی شامت آگئی۔جس کسی کی بھی مخبری ہوئی ، سچ سوجڑے کا موقعہ نہ دیا گیا ،سب کو ہی توپ دم کر دیا گیا ۔
ضلع گوجرانوالہ میںکڑے کنٹرول کے سبب مکمل امن رہا ۔
ضلع راو لپنڈی میں چند ایک سپاہ کے حوالے سے افواہ پھیلائی گئی کہ باغی کوہ مری پر حملہ کیا چاہتے ہیں۔اُس وقت چھاونی میں ایک گورکھا پلٹن ،ایک ہندوستانی گھڑ سوار توپ خانہ ،دو رجمنٹ بے قاعدہ سواروں کی اٹھاون نمبر ہندی پلٹن،اور کچھ حصہ چودہ پلٹن کا تھا ۔اس زمانے میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا مگر پھر بھی سات جولائی کو تمام ہندی فوج سے ہتھیار لے لےے گئے ۔
ضلع شاہ پور میں کوئی آواز بھی غدر کی حمایت میں بلندنہ ہوئی ۔مگر ایک کلرک کو بغاوت پر بھڑکانے کے سبب پھانسی دے دی گئی۔
ضلع گجرات میں بغاوت کے زمانے میںپینتیس ہندی پلٹن کا کچھ حصہ موجودتھا ۔جِسے گشتی فوج میں شامل کر دیا گیا اورپھر فلور کے مقام پر اُن سے ہتھیا لے لےے گئے ۔جہلم کا اک باغی گروہ ضلع گجرات پہنچا تو اُسے دریائے جہلم کے ایک جزیرے میں گھیر کر مار ڈالا گیا ۔اضلاع لیہ ،خان گڑھ اور ڈیرہ غازی خان اورڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا ۔ضلع ملتان میںنیٹو پلٹن انہتر اور پلٹن بہتّر سے نئی ہندی فوج اوربے قاعدہ سواروں کے انچارج میجر چمبرلین نے ہتھیار رکھوالےے جو انہوں نے بِلا کسی حیل و حجت رکھ دےے ، توپ خانے کے اک سر پھرے ہندی افسرکی ہچر پچر پراُسے پھانسی د ے د ی ۔اور مگر اس چھو ٹے وقوعہ بعد کوئی وا ویلا بلندنہیں ہوا۔
ضلع جہلم میں غدر کے ایام میں ایک نیٹو کنٹرول توپ خانہ اور دونیٹوپلٹنیں چودہ اور انتالیس نمبر موجود تھیں۔گورا فوج نہ ہونے کے سبب ،اوپری سطح پر مشورے کے بعد انتالیس پلٹن کو بغیر میگزین ڈیرہ اسماعیل خان بھجوادیا گیا ۔توپ خانہ لاہور بھیج دیا گیا ،جہاں اُن سے توپیں لے لی گئیں ۔چودہ نمبر پلٹن سے چیف کمشنر کا ارادہ ہتھیا رکھوالینے کا تھا ،مگر پلٹن کے انگریز افسروں کے بقول، یہ پلٹن مکمل مطیعِ ٹامی تھی۔مگراس کی قوت کو بڑے طریقے سے کمزور بنانے کے لےے نفری کم کردی گئی ۔اس کی دو کمپنیاں راولپنڈی بھجوادی گئیں۔اور جا بجا دوجی کمپنیاں متعین کرنے پرصرف پانچ سو آدمی بچے ،اور ان سے ہتھیار لینے پہلے راولپنڈی ہی سے گورا فوج مع توپ خانہ منگوا لی گئی ۔چودہ نمبر کی ہی سکھ کمپنی سے بھی ہتھیار لینے کے لےے توپ خانہ اور گورا فوج کی زیرِ نگرانی پریڈ میں آنے کا جلّادی حکم نافذ ہوا ۔پریڈ پرہندوستانی فوجیوں نے اپنے افسروں کے آگے اپنی اطاعت کا برملا اعلان کیا مگر جب ہتھیار رکھ دینے کا اصرار بڑھا تو وہ چار و ناچار غیظ سے اُبل پڑے گئے۔اور اپنے افسروں پر گولیاں چلا دیں۔کمپنیاں توڑ کر لین میں جا گُھسے ۔سکھ کمپنی اور گورا فوج نے تعاقب کیا۔گھمسان کی لڑائی میں کافی انگریز مارے گئے ۔کرنل اُنس کمانڈنگ افیسر بھی شدید زخمی ہوا کپتان سرنگ مارا گیا ،ہندی سپاہ جب لین میں کافی تنگ ہوگئے تو وہاں سے نکل کر ایک قریبی گاﺅں میں گُھس گئے، اس دوران لڑائی مسلسل ہوتی رہی ،آخر انگر یزفوج تیز دھوپ اور گرمی اور شدید حبس سے پژمردہ ہونے لگی ،پھر سین سیری گولوں کی تین توپیں بیکار ہوگئیں،ایک توپ باغیوں نے چھین لی ۔چار بجے گورا سپاہ کی نفری پھر اپنے آپ کو مجتمع کرتے ہوئے گاﺅں پر حملہ آور ہوئی ،مگر مقابلہ ہندوستانیوں نے بڑی جوانمردی سے کیا ۔توپوں کے گروپ کے کافی سپاہ مارے گئے ۔ناچار واپسی کا بگل بجا ،اور رات بھی دونوں فریق ،شب خون سے خوف زدہ اپنے اپنے مورچوں میںچوکس بیٹھے رہے ۔دوسرے روز صبح پتا چلا کہ ہندی فوج گاﺅں سے بھاگ نکلی ہے کیونکہ ان کے پاس میگزین نہیں بچاتھا۔بھاگنے والوں میں سے بہت سے باغیوں کو پولیس نے گرفتارکر لیا ۔بہت سے دریا میں ڈوب گئے،اور جو باقی بچے اُن کو بلا کسی عذر و دلیل کے توپ دم کر دیا گیا ۔ایک سو چالیس تو لڑائی میں مارے گئے تھے۔ لیکن پانچ سو آدمیوں کا بالکل بھی پتہ نہ چل سکا ۔
ضلع جھنگ میں کوئی ہنگامہ قابل ذکر نہیں ،دورُخے ہونے والے،مشکوک زمیندار وں کو بھی فساد کرنے کی جرا¿ت نہ ہوئی ۔
ضلع ہزارہ میں سکھ اور گورکھا فوج تھی جس کی وجہ سے کسی ہنگامہ کا کوئی امکان ہی نہ رہا ۔
ضلع کوہاٹ میں پنجابی فوج نے انتظام سنبھالے رکھااور شر انگیز قبا¾لی جب اس ضلع کی سرحد پر نمودار ہوئے تو انہیں انعام واکرام سے اس طریقے سے نوازا گیاکہ وہ پلٹ گئے ۔پچپن نمبر کی پلٹن جو پشاور سے کوہاٹ آئی تو انہیں بے ہتھیار کر دیا گیا ۔اور وہ مدت تک سرکاری خرچ پر وہاں ہی بے ہتھیار پڑے رہے ۔
ضلع پشاورمیں بغاوت کے وقت برگیڈیر جان نکلسن ڈپٹی کمشنر تھا اور اس کی کمان میںمسلح ہندی فوج آٹھ ہزار اور دوہزار آٹھ سو گورا فوج تھی ۔اٹھارہ چھوٹی توپیں اور ایک بڑی توپ تھی ،اور وہ اپنی عیارانہ صلاحیتوں کی بدولت تقسیم کے بندوبست سے بھر پور مطمئن تھا ۔ایک قابل اعتماد فوج کو گشت پر معمور کیا کہ بغاوت پر کوئی ہنگام اگر اُکسائے تو اُسے پوری طرح باندھ کر رکھا جائے ۔پلٹن نمبر پچپن کو نوشہرہ سے مردان منتقل کر دیا ۔اور پلٹن چونسٹھ کو تین حصوں میں بانٹ کر مختلف جگہوںپر جدا جدا متعین کر دیا ۔اور ہندی فوج کی اکثریت ٹُکڑیوں میں تقسیم کر ڈالی ۔قلعہ اٹک سے ہندی فوج نکال کر پنجابی فوج مامور کردی ۔اور گئیڈ فوج کو مردان سے بھی اسی تدبیر سے دِلّی منتقل کر ڈالا ۔لیکن چند ہی ایام کے بعد اٹک کے گھاٹ پر پچپن نمبر پلٹن کا ایک حصہ جو وہاں متعین تھا ۔وہ وہاں سے نافرمانی کرتے نوشہرہ چلا گیا راستے ہی میں چوبیس نمبر پلٹن جو پشاور کمسریٹ والی رسد پشاورلے جارہی تھی وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی ۔یہ باغی نوشہرہ چھاونی کے دروازے پر ہی دس نمبر کے سواروں سے دوبدو ہوگئی اور جلد ہی بے ہتھیار کرکے محبوس کر دی گئی ۔ان کے قیدی بننے کی خبریں پچپن نمبر کی کمپنیوں تک نوشہرہ اندرون چھاونی پہنچی تو انہوں نے بھی سر اُٹھا لیا۔اور چھاونی کے میگزین پر قبضہ کرلیا اور دریائے کابل کے پار بقایا پچپن پلٹن کے ساتھ جاملیں ۔مگر انجینیر کے پُل تڑوانے کے سبب وہ کمپنیاں کشتیوں کے ذریعے پارجا اُتریں اس خبر نے پشاور کی انتظامیہ کو ہندوستانی فوج سے ہتھیار لینے پر مجبور کیا مگر انگریز افسر جو ان ہندی افواج پر متعین تھے وہ اس فیصلے پر از حد ناراضی ہوگئے دوسرے ہی روز پانچ نمبر رسالے اور چوبیس،ستائیس اور اکاون نمبر کی پلٹنوںسے ہتھیار پریڈ گراونڈ میں رکھوانے کے لےے گورا پلٹن اور نئی پنجابی فوج ان کی مدد کے لےے میدان میں اُتر آئی ،ہندی فوج نے بِلا کسی عذر کے ہتھیار اتار ڈالے۔اُن کے انگریز افسروں نے بھی تلواریں اُتار کر نوکری چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔صرف اکیس نمبرپلٹن اور سات اور اٹھارہ نمبر کی بے قاعدہ فوج اس مواخذے سے چُھوٹی رہیں۔بعد ازیں پچپن نمبر کی پلٹن سے ایک سو بیس کی نفری کوچھوڑ کر باقی نکل بھاگے کرنل نکلسن کے سواروں نے تعاقب کرکے اُن سے مبارزہ آرائی کی ۔اس لڑائی میں ایک سو پچاس باغی قتل ہوئے ۔زخمی بھی بہت ہوئے ۔ایک سو چالیس قید کر لےے گئے اور پانچ سو سوات میں داخل ہوگئے۔اس فتح کے بعد عیا ر فرنگی فوج کا مکمل رعب بیٹھ گیا۔
ضلع گوگیرہ میں غدر کی خبر پہنچی اوراُسی روزڈپٹی کمشنر کو پرچہ لگا کہ دروغہ جیل قیدیوں کو ساتھ ملا کر بغاوت پر تُلا ہے۔چنانچہ بلا تفتیش ، جاسوس کی اطلاع کو صحیح جانتے، اُسے فی الفوبر خاست کر دیا ۔احمد خان کھرل کو ،جس کے متعلق بھی شبہ ظاہر کیا گیا تھا ،بلا کر نظر بند کر دیا گیا ۔چھبیس اگست کو جیل میں قیدیوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔کٹار مکھی پلٹن کے سپاہ بلا ہتھیار قیدیوں پر ٹوٹ پڑے اوربڑی بے رحمی سے اکاون قیدی مارڈالے۔احمد خان کھرل جیل سے بھاگ نکلا ۔دوبارہ طلبی پر آنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔مگر سولہ ستمبر خبر پہنچی کہ زمیندار انِ کھرل قبائل نے بغاوت کر دی ہے اور اس کا سربراہ احمد خان کھرل ہے ۔اس پر اسسٹنٹ کمشنر برکلے دریا کے کنارے پہنچے اور دوجے کنارے پر احمد خان کھرل کو مع باغیوں کی نفری کھڑے دیکھا اُس نے بآواز بلند ،سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے انگریزی اطاعت چھوڑ کر دِلّی کے بادشاہ کی اطاعت کر لی ہے ۔اس پر فرنگی فوج نے ایک مولوی کوپکڑا اور زمیند اروں کے جانور پکڑ لےے ،اور جھامرا نامی گاﺅں کو جلا ڈالا۔تیسرے روز زمینداروں نے ضلع کچہری پر حملہ کردیا ۔ عین اُسی وقت کرنل پاٹن اسسٹنٹ کوارٹر مارشل لاہور سے تین توپیںاور اکاسی نمبر گورا پلٹن اور کچھ سپاہی سبحان خان کرنل کی پلٹن سے لے کر آ پہنچا ۔اور پے درپے توپ کے گولے باغیوں پر گِرے تو وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اور گورا فوج اُن کے تعاقب میں نکل کھڑی ہوئی راہ میں ہی دونوں کا شدید ٹکراﺅ ہوگیا ۔اس لڑائی میں احمد خان کھرل اور لیفٹیننٹ اے جے جسٹر مارا گیا ۔تیسرے روز پھر دوسرا معرکہ ہوگیا ۔اس میں اسسٹننٹ کمشنربرکلے مارا گیا ۔باغیوں نے ہڑپہ تحصیل پر حملہ کرکے شدید نقصان پہنچایا ۔کھرلوں کی یہ بغاوت بہت ہی طول کھینچ گئی اور جا بجا فرنگیوں کی لمبی سرکوبی ہوئی تو کپتان مکندرو اک بھاری فوج کے ساتھ وہاں پہنچا اور کرنل پاٹن کی ہمراہی میں چیچہ وطنی میںچمرلین کو باغیوں کے محاصرے سے چھڑایا اور ایک طویل عرصے تک یہ جنگی محاذ کھلا رہا ۔آخر کار باغیوں کو شکست ہوئی ،کچھ مارے گئے کچھ پکڑے گئے اور بعض نے اطاعت قبول کر لی ۔اس بغاوت میں قوم کاٹھیا ، قوم کھرل، قوم ستیانہ اور چوتھی وٹو شامل رہی اور اس ٹکراﺅ میں ان کے تیس ہزار کے قریب افراد شامل رہے ۔ہتھیار ختم ہوجانے کے باوجود لاٹھیوں کلہاڑوں تلواروں،اور خنجروںسے لڑتے رہے ۔اور یہ ہی مقاومت میں فصیل بنے سینے کیسے سُرخی¿ لہو سے دہک اُٹھے۔۔؟
چاندی کی توپ سونے کے گولے،دھما دھم بولے۔۔
آخرِ کار ہو گئی ناتوپ کی رونمائی ،لڑاکوں کے جولانی بھرے وجود ،لاشوں میں ڈھیر،شق سینے خون آلودہ۔۔
بابر یارا یہ تم کیا اُٹھالائے لہو لہان کرنے کا اسبابِ فتوحات۔۔
ادر نادری دور میںہاں ہاں، مرہٹوں کی دُرگد کیسی بنی ،پار شُو بچوں کی مت پوچھو۔۔
قیمہ توہوا ہمارا۔۔
فتح کیسی۔۔؟
دُشت بھاﺅ گُوہی مٹی میں گم ،دُوشکالی لمبی دو شاخہ شکاری زُبان، دا ہنی بُرج سے نکلی چار ناچار سمتوں میںگومتی گُوھمائے کمان ،آٹھ ڈیلوںکی کھڑکار،آئے کہاں سے فاصلے مارتے گُھمنڈی چار کھروں کے پرچارک پر چار کمیت سوارسامنا کرت پانی پت مگر۔۔؟
تیغوں کی چمک اور گھوڑوں کی ہمہماہٹ تو مرہٹی ہے ،تین لاکھ کا جثہ روبرو نادر شاہ افشار ،جو شکم گُندھے ۔مُلک گِیری کی ہوسِ ناگزیرمیں ملفوف، دھرم نندا،غرور و نخوت،فہرست ِ فردِ جرائم گیری،اپنا قُلہ شجر بنا لُوٹ اور چیرا دستی اُٹھانے سے انکاری۔۔
کرسٹوفر ہی برٹ نے اپنی بیانیہ تاریخ ”عظیم بغاوت،انڈیا ۷۵۸۱ “میں وہی بندشی باریک بین نقطہ موجود ہے کہ جو سرسید کی دُعا میںبندھاہے کہ ٹامی ہم ہندیوں کامحسن،اور ہم احسان فراموش،اس کتاب میں بھی جو بولیاں ٹھولیاں جمع کی گئی ہیںاس میں جو بھی دو نقطے اُبھرے ہیں۔اس کا رنگ روپ بھی ہمیں ہی مطعون کرتا ہے ۔اس بغاوت کاسبب تو ان کی نظر میںفرنگی نفرت انگیز رویہ ہے ۔لیکن بادشاہت اور سوداگروں کی لُوٹ کے بل بوتے اک گماشتہ طبقہ پیدا کیا۔اور لالچ کی اتنی بے توقیری حِس درجاتی انجیکٹ کی گئی کہ سبزازار کی رحمتیں نازل کرتا ملک مسلسل بھوک و درندگی میں لپٹا مصنوعی قحط کا شکار،اور اُن کی سورج نہ غروب ہوتی سلطنت کی محافظت کے لےے سپاہ خوراک مہیا کرنے کی زمین رہ گئی۔جنگ عظیم اول کے چھ سات لاکھ سپاہ اسی مُلک کے باشندے تھے ۔پیٹ روٹی کی خاطر اُن سے چپک گئے ،مگراپنی زندگی کے زور سے فرنگی تخت کو بچاتے موت کے دوارے جا بسے۔مگر ہتھے کیا آیا۔۔؟ایڈمُنڈورنی ایک جوان نیول فرنگی نے اس بات کواپنے باپ کو لکھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس نے ایک اور زاویہ سے دیکھا اور بعنیہ اظہار کر ڈالا کہ ہند میں قیام پذیرانگلستانی عمومی طور پر نیٹو سے تنگ نظری شکار ہیں،اور اس کا اظہاراُن کے برتاﺅ میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
نیٹو کو وہ کاہل ،ہڈ حرام ،مٹھائی اور گھی سے چمکاتے ،اور چلم تمباکو میں دن رات غرق رہتے ہیں ۔اور فرنگی ان سورﺅں کے اِجڑ کو تربیت دیتے ہیں۔۔
لیکن سردارو ،سچ سچ بتاﺅ،کیا تم تک اُن کی گالیاں نہیں پہنچتیںاور ۔۔؟
اورکیا ان سے اسرائیلی تربیت یافتہ تورات اور داﺅں بدلنے کی تربیت تم نے لے لی ہے ۔ ا ن کی طرح اپنے گورواور اُن کا لوکائی فرمان بدل کر کوئی نیا گرنتھ لکھ مارا ۔تمہیں فرنگی کے ہاتھوں بِکنے اوربدلے میںما ل بٹورنے کا تحکیمی گرنتھ کُھلا اور کیا مِلا۔۔؟
دو اگنی کا لمبو دیکھو ۔!ساری سکھی مثلوں کو سِرعام بیچا تم نے ۔۔!
اوراس جی داری کی بدولت ملا کیا؟
فیروزی ۔۔؟
سورٹھا سورج گرہن میں مقفل ۔سُنتے کان ،پُر سرُوراور مخمور،خمار انگریز ی میں لہکتے تھے ۔کہ گورو گوبند سنگھ کی رائج سلامی،سانوں اُس نے فتح بولی ہے ۔۔
کاٹھیوں،کھرلوں ،ستیانوں،وٹوﺅں نے توجی داری دِکھائی، راوی رُت رَس کنارے ،کسی حاصل حصول کے لےے نہیں ،اپنی زمینوں کی ساری پیداوار اپنے قوتِ بازو سے نکالی ہوئی ساری اجناس کو بچانے، اپنے ہاتھوں بچوں اور خانگی عورتوں کے لےے چڑھائے کوٹھے کُلّوں کو بچانے کے لےے لڑے ،ہار جیت سے بے نیاز رہتے ہوئے۔ہار گئے تو کیا ہوا اک روشنی کا ساری ہندی مخلوق کے دل میںآفتاب روشن تو کر گئے۔۔!
بے اِختیارکال بلیندی میں لوکی کیا کہتے تھے۔۔!
کال بلیندی نادر چا بّدھا اے ڈھانا
انگریزاں دا مُلکھ ولیت اے ، برکلّی وِچ پنجاب دے دھانا
چڑھدے نوں ماں مَتّیںد یوے،پُترا جاویں ہوسیانا
توں وگیا جاناایں وچ پنجاب دے کھرل راٹھ نی،بیگا،باجا،نونہیاں با ہدر
چر ہیڑیاںاگے وی چھڈیا اے سیدھ کرانا
٭٭٭
ساریاں قوماں دا سردار احمد خان ہئی،سُچا اوہنداپیٹا تے تانا
اگّے وی نال حکومت دے اوہ لیندا مورچے ،اوس توں وَلا کے لکھ جاندا
راجہ رنجیت سنگھ نمانا
٭٭٭
برکلّی آکھے:چُپ کر جا او سوہریئے! تیرا مَیں پلّے نہیں لیندا بنھ جُھرنا
ماں آکھس : جِتھے زور پانی دا ہوئے ،پُترا اگوں کوئی نہیں لیندا ٹھلّھ اڈانا
برکلّی آکھے : مَیں جاساں وچ پنجاب دے ، جاندیاں نال احمد خان دے
جوڑا اے گھانا
بنگلے کیتے آن اُتارے ،پوند بنایا ضلع ،مُڑتحصیل کو لے چا بنانا جیل خانا
برکلّی آکھے : جے کدی احمد خان رنگروٹ تے گھوڑیاں نہ دیسیں
بنھ بنھ کے ضلیاں نوں دیساں ٹور چلانا
راٹھاں نوں بولیاں پھٹ کریندیاں ، پھٹ مرداں نوں ہوندا گاہنا
احمد آکھے: تینوں انج رنگروٹ بھگتیساں ،جویں مرزے تو رن لاہی کھرلاں
چھڈ یا اے دِلّی وی چَٹ نشانا
تھوڑا جیہاحوصلے وچ رہو اوہ بے دینا ! کم اوہو اے
جیڑا مولا پاک نوں بھاتا
اور اس کے مقابلے میںتمہیں کیا مِلا ؟تمسخر،ٹھٹھا!کیوں نہ یہ ٹھٹھا تمھارا پیچھا کرے ،تم نے تو پنجاب کی فرنگیوں سے جیتی ہوئی چارجنگوں میں دست پنجا کرتے ،فتح کے چڑھدے سورج کی کرن نکلتے دیکھتے ہی معرکے سے اُٹھ بھاگے ،اورشکست خوردہ فرنگیوں کو جِتا ڈالا۔۔
پھر بَن کرکیارہ گئے۔۔ ؟
اک درباری کلاﺅن۔۔!!
انہوں نے تو اپنے افسروں اور گورا سپاہیوںکے پنجاب کے میدانِ جنگ میںمرنے کاساٹھ سال تک رِڑکا درد کو ، لیکن جو دوجوں کے گھر آگ لگائی ،جو کچھ لوٹا ،اپنے گھر میں تو سونے کی اینٹیں بچھا کر نئی نئی ایجادات کی فیکٹریاںکھڑی کرڈالیں اور ہمارے ہاںجو علمی چولا پہنا ڈالا۔ اُس میں اک نیا علمِ تکبربلند کیا کہ جو بھی پڑھ لکھ جائے وہ صاحبِ تکریم بابو ،جس کا مقدر کوٹ پینٹ اور کرسی سے بندھا،اور کلرکوں کا لشکرِ جرار پیدا کیا۔اور جو اپنے زور پر اُڑان بھرنے کے قابل ہوجائے وہ فرنگی دیس میں زیادہ مال کمانے کی روش میںکھنچ جائے اور غلامی کی نئی نہج پر چل نکلے ،سوچ بچار کے سب لمحے اُس کے بے حسی میں ڈالتے، پکاتے،وقت کا احساس گُم کرتے ، ایک ہی یقین محکم اُن کے اندر پرویش کرے کہ دیر سویر کرسی یا مشین تک پہنچنے میں ہوجائے تو اُس روز کارِزق ہی چِھن جائے ۔دل میں لگی اس آگ کو بھڑکانے کا عمل ان ہی فرنگیوں کے ہاتھوں ہوا۔
ہور چُوبو سردار جی ۔!
اگ لگ گئی اندر باہر جی۔!!
جلیان والہ باغ کے سامنے ،دو دو منزلہ مکانوں کے پیچھے جہاں سڑک کٹ کر پھر دو حصوں میں تقسیم ہوکر ، کالج روڈ پر نکلتی کھلکھلاتی ہے ۔وہاں سے دوجی سمت سیدھی فرنگی چھاونی کے منڈوے کی جانب بڑھ جاتی ہے۔اسی ڈھلوان میں اُترتی کٹاﺅ والی جگہ پر گورے فوجی افسر کی آنکھیںاپنی کلائی پر بندھی گھڑی کودیکھتے ہی اُٹھتی ہیں اور بھولے بھالے درگاہ چوک سے آتے سائیکل سوارسردار جی پر جم جاتی ہیں ۔اور کٹاﺅ والی سڑک کے درمیانی فاصلے کو آنکھوں میں سمیٹتے وہ منڈوے روڈ کی طرف بڑھا مگر عین اسی کٹاﺅ والی سڑک پر پہنچتے ہی وہ ایک لمحے کے لےے رُکتاکہ سائیکل سوار نکل جائے۔مگر وہ وہاں سے سیدھا نکلنے کی بجائے کالج روڈ سے آنے والی اوپر چڑھتی سڑک کے کٹاﺅ پر کھڑے گورے فوجی افسر سے ٹکرا گیا ۔اور پھر پُھرتی سے اُٹھ کر سڑک پر ہی گِرے گورے فوجی کو اُٹھا کر اُس کے کپڑے جھاڑتے،معافی مانگنے لگا ۔
او پتہ نئیں جی کیویں سیکل تواڈے ول مڑگئی ۔ میں تے سِدھا جا رہیا سا ں۔
گورا فوجی یک دم غصے سے بڑبڑا اُٹھا
ویل کوئی بات نئیں ،ہمارا گھڑی ہی غلط ٹائم بتا رہا تھا ،تم بالکل صحیح ہے ۔
اوراپنی گھڑی کی سوئیاں بارہ پر منجمد کر تے سڑک پردے ماری ۔۔
ویل گھڑی غلط ہو سکتا ہے ،سردار کبھی نہیں ۔۔
ہون دسو سردار جی،لتھی کہ چڑھی۔۔!
تالیوں پر بھنگڑا ،ناچو،او جٹا آئی وساکھی۔۔!
سردار جی سردار جی ،اگ لگ گئی اندر باہر جی۔۔
کسی گلی میں کوئی سکھ تنہا جا رہا ہو تا تو احوا ل پوچھنے پر یہ اطمینان تو ظاہر تھا کہ وہ گروہ کے کسی بھی فرد کوکسی مغل کی مونچھ کا بال یا خبر نامے کا پرچہ نویس نہیں سمجھے گا ۔اور ہم سب مل کر یا اکیلا میں۔؟
یعنی بلبیر سنگھ اُس سے معانقہ کرتے ،اُن کی قومیتی خون ریزی پراپنی کسم پُرسی کا درد بانٹ سکتا ہوں۔ جو وہ عوام میں سے ہوتے ہی سوچے گا ضرور ،مگر وہ تعداد کی بڑھوتی پر جب ایک سے دوہوجائیں او رقدم مارتے دو جی طرف سے آتے دکھائی دیں تو۔۔؟
تو چہرے پر نفرت اور غیظ کے جلوے معدوم کرنے کے لےے ماتھے پر گلاب کِھلاتے ،چہرہ مسکراہٹ سے فزوںضرور ہو ، کلام کا لحن اُن پر باہم ترشح کردینے کی اک بے اختیار چاہت۔۔
فوجاں کتھے چلیاں نئیں۔؟
اوجی بس اساں جاناں کتھے وے ،بس سوچیا کہ چُنج ہری کر لےے ،تے تُسی وی آﺅ نا،ملایاں مار کے لسّی دے دو، دو ، دَور چڑھالےے ۔
اور نہ صرف مَیں میرے ساتھی بھی تشکر کی روشنی بکھیرتے دلجوئی کے الفاظ سے انہیں بھنگڑا ڈالنے پر مجبور کر دیتے۔!
شاوا بھئی شاوا ،ہسدے کھیڈ دے ای چنگے لگدے او،یاراں دی جڑت توں کدے ویل ہوئی تے فیر تواڈے نال قدم پٹاں گے ۔
لیکن ہم سب میں یہ فوجاں والا زہر گھمن گھیریاں ڈالے رقصاں ہے ۔
نجانے سکھ بھائیوں میں یہ کسب کیسے جاگا ۔۔؟
سوال کی اندوھناکی ہم سب کو اس کی کھوج کی جانب دوڑا دیتی ہے ۔؟
گمشدہ محبتوں کی کھوج ۔؟
بابا گرو نانک نے انسانی برادری کی سفارت کی ابتدا بابر سے محبت کا رشتہ استوار کرتے دعاﺅں کے جُھولے میں ہلکورے دے ڈالے ۔اور دوجے گرو نے برہمنوںکے بنائے ذات پات کے جال میں پھنسے پنجابیوںکو اس سے نکالنے کے لےے کھنڈور میں اک لنگر جاری کیا۔ اورپنجابی زُبان کو تیجا رسم الخط گورمکھی کے نام سے ودیعت کیا ۔پہلے دو رسم الخط تو تھے ہی شاہ مکھی اور دیو ناگری اور تیجے گرو نے بے گھر سکھوں کے لےے بیاس کنارے اک بستی بسائی ،اور پیاسوں کے لےے چوراسی سیڑھیوں والی باولی بنوائی، اکبر نے چوتھے گورو رام داس سے ملاقات بھی کی اور لنگر کے اخراجات کے لےے پانچ سو بیگھہ زرخیز زرعی زمین خرید نے کی اجازت بھی دی ۔۔اُن کے بیٹے پانچویں گرو ارجن نے شاہ حسین کی مشاورت سے گرنتھ صاحب کو مرتب کیا ۔اور بیکار آوارہ پھرنے والے سکھوں کو زرعی زمینوں کی واہی بیجی پر لگانے کا مشورہ دیا ۔جس پر انہوں نے دو شہر بیاس کے کنارے ہی بسائے اور اجناس کی منڈی بننے سے سکھوں کی معاشی حالت سدھر نے لگی ۔اور سکھوں کو اک مرکزی مقام دینے کے لےے امرت سر میںگورو دوارہ بنوایا جِس کا سنگِ بنیاد میاں میر نے رکھا ،میاں صاحب جتنے دن وہاں گورو دوارے کے ساتھ اک کٹیا میں رہے ، اور آج بھی وہ کٹیا میاں کی کُلّی کے نام سے متبرک جانی جاتی ہے ۔اس سارے محبتوں کی جڑت کے جلتے چراغ کِس نے گل کردیے۔۔!
اور پرانے وقتوں میںمغلوں کے غرور سے سکھوں کی نفرت اور فوج اور چھاونی کاقصہ کیوں جاگا ،اور کیسے مغلوں کی نفرت میں سب طبقات مسلم اس چکی میں پِسے ۔شاہ حسین کے مشورے پر آوارگی کا خاتمہ کرنے والے ،اور میاں میر صاحب کے سنہری گورودوارے کی بنیاد رکھنے کی کتھا تو کچھ اور ہی کہتی ہے اگر کوئی غلط کام گرو ارجن سے سرزد ہو رہا تھا تو یہ دونوں طرح دے دیتے ۔لیکن سرہندی شیخ کونجانے کیا غلط فہمی ہوئی مکاتیب میںایک مراسلہ جلال الدین اکبر چغتائی کے نام ہے ،جس میں آڈی گرنتھ اور گرو ارجن کے باغیانہ رویہ اورسلامی روش سے گمراہ کرنے کی خبر رسانی کی گئی ،کہ غریب مسلمانوںکو سکھ دھرم میں کھینچنے کا احتمال جگایا گیا ۔لیکن جب اکبر لاہور جاتے ہوئے وہاں رُکا تو نو رتنوں میں سے دو علماءنے آڈی گرنتھ کو دیکھا اور پھر کھیتی باڑی سے آوارگی کا انہدام ہوتے ،شہروں کی آبادکاری اور تجارت دیکھی تو شک شبہے کی ساری تہمتیںدُھل گئیں،گرو ارجن کی بہبود مردم میں لگن دیکھتے ہوئے آڈی گرنتھ کے پیغامِ انسان دوستی سے بے خود ہوتے سلامی دی اور حاضری کے دست مبارکہ پر اکاون سونے کی مہروں کا چڑھاوا چڑھایا ۔۔
لیکن جہانگیرکے تخت نشین ہوتے ہی دوسرامراسلہ بغاوت کی بُو مٹانے کی تُندی میں لپٹا پہنچا تو گرو ارجن کی زمین اور مال و اسباب ضبط،اور قیدِوبندو سلاسل سے قتل کا اہتمام اور پھر راوی بُرد ہونے والے گرو کے بیٹے گوروکے دل میں مغلوں کے خلاف انتقام کی آگ لگا دی ۔لیکن دینی مُلّاان بدطینت بے حرف مغلوں کو مسلم جانتے ،مساوی جاننے کے تعلق کو کفر جانتے مغل مذہب کی تفسیر اپنے نام اور طریقت کی رکھیل بناتے، مسلمانوںکوسکھوں کے خلاف بڑھکاتے رہے۔اور سکھوں نے مغلوں کے ظلم کی چکّی میں چھان بورا بننے کی بجائے مقاومت کا رستہ اختیار کیا ۔مگر پہلی جنگ ہی مغلوبہ ٹھیری اور پکڑے گئے قیدی مغل شاہ کے حکم سے قتل ہونے کے بعد لاہور کے قصابوں کے ہاتھوں بوٹی بوٹی میں تقسیم ساری لاشیں ۔۔!
لاشوں کی اتنی بے حرمتی کیا مذہبی صلح جوئی اور روا داری اس کی اجازت دیتی ہے۔۔؟ مگرنفرتوں کی بنیادپرکمیلہ کھولنا تو مغلوں میں اپنے اجداد کے خون سے اُن کے اندر حلول کیا ہوا تھااب بھی ، اپنی جوانی کغ عصا کوتھامے کھڑا اُکساتا تھااور وہی وطیرہ ،قہر کی تیغِ نیام سے بے نیام ہوئی اوردھار کی تیزی اور آبداری کو پرکھتے ،اندھا دُھند بے ہتھیاروں کو ہتھیار اُٹھانے پر اُکساتی پِل پڑی۔ اور لڑائی مغلوں کی بجائے مسلمانوں اور سکھوں کے گھر خاکستر کرگئی ،جہانگیر،شاہ جہان ، اورنگ زیب اور پھر فرخ سیر تک بھی یہ قتل و غارت گری کا سلسلہ بند نہ ہوا ۔۔
اور یہی دشمنی ۔؟
قتال۔۔؟
سکھوں کو فرنگیوں کے ساتھ نتھی کر گئی ۔ورنہ سکھی چار جنگوں سے گورا اپنے برطانوی افسروں اور برطانوی سپاہ کے قتال کو تو نہیں بھولا تھا ،ساٹھ سال تک ان کا رونا پیٹنا تو مسودات میں بھی مچلتا رہا ۔لیکن تیسری افغان جنگ میں فرنگی فوج کا قیمہ،کہ کابل سے صرف ایک ہی فرد بچ کر آسکا۔یہ تو تھی ایک وجہ ،اسی کے اُٹھتے ہول کے اُٹھتے گردباد بننے کے سبب اور شوروی کا ہَوّا خوابوں کی راحت کو اُجاڑنے کی بدولت۔۔؟
شوروی خوف ایسا کہ ہندوستان اُن کے لےے اک سونے کی چِڑیا،جو انہیں اپنے ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوئی ۔اسی سبب اپنے پنجے پنجاب میں پکے کرنے کی خاطر سکھ سرداروں کو مرا¿ت سے بھر کر اپنی شکست کے لمحے سے جان چھڑالی، چند نفری ٹولیوں کو چھوڑ کر باقی سکھ فرنگیوں کے گرویدہ،اور بساکھی پھر سے زندہ تابندہ۔۔!
اوربھنگڑا تال پر اُن کے قدم رقصاں ۔۔
پنجاب کی اٹھارہ سو اکتالیس اور اٹھارہ سو انچاس کی سکھ افواج اور انگریزوں کے
مابین ہونے والی جنگوں کی بدولت کہ جس میں شکست کھانے کے باوجود سکھوں نے انہیں لہو رنگ میں رنگ ڈالا ۔اور اِسی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لےے نئی انہار کی بدولت لائل پور اور منٹگمری کی نئی کالونیاںجو ویرانی کا شکار تھیں۔اُن میںان غولِ بیابانی کو لایا گیا ۔ اٹھارہ سو ستاون کی سکھ وفاداریوں کا صلہ عنایت اور مہر سے سکھ جاٹوں کو وہاں بساتے وسیع و عریض زرعی زمینیں دیے دی گئیں اور اُنہیں معاشی پریشانیوں سے آزاد کر دیا ۔اورپھر ہندی فوج میں بھرتی پر،پہریداری کاگِرایا ہوا بیریر اُٹھا دیا گیا،اوردُشمنی کھوجتے شلاک و تفنگ بردارکی مسلط پابندیوں کوختم کرتے ہوئے اُن کے لےے دروازے مکمل کھول دیے ،اور اسی سبب پہلی جنگِ عظیم میں اُن کی تعداد کل فوج کا چھٹا حصہ بن گیا۔اور ۔؟
جیت کے بعد،ہند کے برطانوی تاج کے ساتھ الحاق پرچِپکنے پر کیا مِلا ۔۔؟
جب کہ سکھ سلطنت اور اُس میں شامل علاقوں کا انتظام ریجنسی کونسل کے سپرد کر دیا گیاتھا ۔اور سیدھے پڑاﺅ پر نگران الفاظ میں دیکھیں تو چھاونی کے جبروت سے پھوٹافرنگی فوجی راج مُسلط اور باقی مُلک کی ڈور فرنگی شاہ کے تخت، واقع انگلستان کے پائے سے بندھی ۔۔!
اور سکھوں کو اُن کی اس محبت کا صلہ کیا مِلا۔۔؟
اور راج کرنے کاوسوسا کیسا رہا ۔۔؟
بولو سردار جی ۔۔؟؟
ہے کوئی جواب پوری قوم کے پاس ۔۔!
اور وہ ۔؟
بلبیر سنگھ ۔؟
بلبیر سِنگھ اپنے سارے ہم جولیوں سنگ اسی بات پر ہی انتہائی رنج اور دُکھ میں لِپٹے،خفیہ دستاویزات کی لفظ بہ لفظ چھان پھٹک کرتے حیران ہیں کہ اب ان ساری دلدلی زمینوں کو خُشک کیسے کریں۔۔
شاید باہمی سوچ وفکر اوربھائی گیتی اور مکالمے سے کوئی نئی راہ نکل آئے۔۔
Read more from Sami Ahuja
Read more Urdu Stories