گواہی ۔۔۔ ثمینہ سیـد

گواہی

ثمینہ سید ۔

” میں محبت کے سحر میں ہوں اپنے آغاز سے ہی۔جب سے مجھے اپنی سمجھ آئی تب سے ہی وہ میرے ساتھ ہے۔مجھے اس کے قدموں کی چاپ تک سنائی دیتی ہے۔میرے قدم ایک دم رُک جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے وہ بلا رہا ہے مجھے۔اس نے آواز دی ہے۔ اک شناسا سی خوشبو میری نس نس میں اترنے لگتی ہے۔جو اوائل جوانی کے دنوں میں سما گئی تھی۔ وہی تھا۔۔۔۔جس کے پرفیوم کی خوشبو میرے حواسوں پر طاری رہتی تھی۔جیگوار کلاسک بلیک۔۔۔۔میری تکمیل کرتا ۔۔وہ نہیں بھی ہوتا تو مجھے ساتھ ہی محسوس ہوتا۔میری پہلی محبت،وہ شخص میری کچی عمر کی چاہت۔اس کے بعد میری آنکھیں کچھ اور دیکھنا بھول گئی تھیں۔۔۔دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہی تھیں۔۔۔۔۔ شاید

لیکن۔وہ بھی نظر نہیں آتا مجھے۔ ہمیشہ اس کا لمس چھو کر گزر جاتا ہے وہ جو میری پہلی خوشی، پہلی محبت،پہلا گناہ۔۔۔۔۔۔جو آخری بھی ثابت ہوا ہے۔ جب سے اس نے میرے بدن کو چھوا تھا میں تب سے ہی پتھر ہوگئی تھی۔ کبھی کبھی تو میں گھنٹوں نہاتی۔ایک عجیب طرح کا مجرمانہ احساس مجھے گھیر لیتا۔اور کبھی۔۔۔۔وہ خوشبو بن جاتا۔۔۔مجھے مست کردیتا۔ میں گناہ اور ثواب کے چکر سے نکل جاتی۔۔۔۔بس اس کا پیار بھرا لمس رہ جاتا میں مٹ جاتی۔ ” میں سانس لینے کے لیے رکی۔ پانی کے دو گھونٹ حلق سے اتارے۔

میری نظریں کھڑکی کی طرف اٹھیں۔گلی کے نکڑ تک اسی کو ڈھونڈتی رہیں روز کی طرح۔۔۔۔میری نظریں مایوس نہیں ہوتی تھیں،اور امیدایسی کہ مجھے ہلنے ہی نہ دیتی کبھی بھی نہ ٹوٹتی۔۔۔ایسے میں امی کی آواز سماعتوں میں تازہ ہوجاتی۔

“زمرہ تو پھر کہیں گم ہے، سوچتی ہوں کسی اچھے عامل کو تجھے دکھا لاؤں نجانے کیسا روگ میری بچی کی جان کو لگ گیا ہے۔ “

بیچاری امی۔۔۔۔۔ ماں تھیں ناں۔۔۔۔۔شکر ہے۔۔۔۔جان نہیں پائیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ نہ جاننا ان کے لیے بہت بہتر ہوا ۔۔۔اور وقت گزر گیا۔ ساری دھول میرے منتظر بدن پر ڈالتا ہوا۔۔۔ میرے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ امی ابا میری شادی کے لیے ضد کرتے کرتے زندگی سے ہار گئے۔ اب میں اکیلی تھی اور بہت مشہورو معروف شخصیت بن چکی تھی۔ لیکن وہ وہیں تھا۔۔۔ میرے اندر بیٹھی چھوٹی سی نوعمر لڑکی کو صندل کر کے جانے والا۔۔۔۔ وہیں رہتا تھا اس لڑکی کے بدن میں۔”

” وہ کون تھا ویسے؟” شہزل نے سوال کیا۔ وہ سوال پر سوال کررہی تھی۔ یہی کچھ کرنے آئی تھی۔

” کون ؟ ” میں حسبِ عادت چونکی۔

” وہی جس نے تجھے دیوانہ کر رکھا ہے، تجھے نہیں لگتا بہت وقت بیت گیا۔ سب کچھ بدل گیا،تو بھی بدل جا اب۔کتنے کام کیے ہیں تو نے زندگی میں۔۔اتنا اضطراب تیری جان لے لے گا۔ “

میں اسے کیا بتاتی وہ تو آئینے میں جما رہتا تھا۔فریب ہو شاید۔۔۔۔۔۔۔۔شام کے جھٹپٹے کا طلسم ہو شاید۔۔جاڑے کی اداس راتوں کا سرسراتا ہوا کوئی پر اسرار سایہ ہو شاید۔۔میں نہیں جانتی۔۔آسیب ہو شاید۔ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔۔۔ہاں اتنا جانتی ہوں وہ میری روح میں حلول ہے۔

میں بولنے لگی۔”کالج کے دنوں کی بات ہے۔ اس کا کالج میرے کالج کے بعد آتا تھا وہ روز ہی میرے ساتھ ساتھ چلتا۔۔کبھی ہاتھ بڑھا کر چھونا چاہتا۔ میں سرخ پڑ جاتی تو مسکرا کر آگے بڑھ جاتا۔ وہ خواب جیسے لمحے دل پر نقش ہورہے تھے۔ کچی عمروں کے پکے نقش۔ “

“کبھی بات ہوئی تھی؟ کسی قسم کے عہدو پیمان؟ “شہزل کے سوال پر میں نے ذہن پہ زور ڈالا۔

“نہیں۔۔۔عہد وپیمان نہیں۔۔۔لیکن یقین ہے وہ،حقیقت ہے وہ۔۔۔ہاں میرے ہونے کی واحد گواہی ہے وہ۔ جس نے مجھے چھو کر مکمل کیا تھا۔اس نے خاموشی سے میرا ہاتھ تھام لیا تھا ایک دن۔۔۔تب سے اب تک میں وہ ہاتھ جھٹک نہیں سکی میں۔۔۔۔۔۔۔کچے پکے خاک اڑاتے راستوں پر کم سن آنکھوں میں حیرانی بھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ کانوں کی لوؤں سے الجھتی سرگوشیاں۔گھنگھریالے بالوں کی لٹیں، ناک پہ چھوٹا سا تل۔ ہاتھوں میں اس کے ہاتھ۔۔۔۔۔۔جلا دینے والا لمس ۔۔۔۔۔مجھ میں جاگتا رہتا ہے۔ جلاتا رہتا ہے اور میں اسی میں جل کر راکھ ہوگئی ہوں۔تب یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس نے مجھے خود میں چھپا لیا تھا۔ روح کی محبت کو بدن میں اتار دیا تھا۔ پھر ایک دوسرے کے ہونے کا احساس روز تن بدن میں، روح میں جاگنے لگا۔ہم سرتاپا گناہ بن گئے تھے۔ ہوائیں اڑائے لیے پھرتی رہتی تھیں۔ اس نے مجھے چھو کر پتھر بنا دیا تھا یا کہ پارس۔۔۔۔۔اب بالوں میں اترتی چاندی کے ساتھ بھی میں وہیں کھڑی ہوں جہاں وہ تھا میرے ساتھ۔میں جاگتی ہوں اور یہ سٹریٹ لائٹ۔” میں نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ سانس آزاد کیے پھر بولنے لگی۔

“میں اسے محبت سمجھ بیٹھی۔پھر میں محبت کے اس فریب میں دانستہ رہی۔کیونکہ وہ تو بغیر بتائے کہیں چلاگیا تھا۔ شاید اس کے گھر والے اسے محبت کے اس جنون سے بچا کر لے گئے۔ شاید انہیں کچھ پتہ چل گیا ہو۔یا پھر وہ۔۔خود چلا گیا۔۔۔۔اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی اس کھلونے میں۔۔۔ میں نہیں جانتی وہ کہاں گم ہو گیا۔ بہت دن میں نے دیوانوں کی طرح اسے سڑکوں پر، راہداریوں میں، گلیوں میں ڈھونڈا، اور پھر آج تک میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔ “

میری آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا تو بیٹھنا محال ہونے لگا۔ بولتے بولتے میری سانسیں پھولنے لگیں۔

شہزل جعفری میری مداح تھی۔ میری کولیگ کی چھوٹی بہن۔ لیکن میری دوست بن گئی تھی۔ گہری دوست۔نوجوان صحافی تھی۔ میرا انٹرویو کرنا چاہتی تھی بہت دنوں سے وقت مانگ رہی تھی۔

میں نے گھر بلالیا۔ زخموں سے کھرنڈ اترنے لگے۔ میں نے کہنا شروع کیا۔

” آج جو میں معروف مصورہ ، شاعرہ اور افسانہ نگار ہوں۔میں زندگی کے فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے مزید الجھ جاتی تھی ان دنوں۔ نظمیں انہی دنوں میرے اندر سے پھوٹنے لگی تھیں۔ٹوٹی پھوٹی نظمیں آہستہ آہستہ سنورنے لگیں۔ کانٹ، ہیگل،افلاطون، ارسطو اور نطشے مجھے تحریک دیتے،جگائے رکھتے۔میں ان کے فلسفے کے مطابق میں شہر سے نکال دئیے جانے کے لائق تھی۔ محبت کررہی تھی، شعر کہہ رہی تھی، لمس زدہ تھی،گناہگار تھی۔میں نقل کی نقل کر رہی تھی۔ کائنات جو محبت کی بنیاد پہ ایستادہ ہے۔ اور میں جو نجانے کب سے محبت کر رہی ہوں میرا ہر فلسفہ اسی پر تمام ہوتا ہے۔۔ہر نظم اسی لمس پر جا ٹھہرتی ہے۔۔ میں گھبرا کر کتابوں میں پناہ ڈھونڈتی رہتی ہوں۔یہ نظمیں اور افسانے نہیں ہیں فرار ہے۔۔اب تک میری تلاش کو ٹھکانہ نہیں ملا۔تو لکھ رہی ہوں۔ بس یہ میری حقیقت ہے۔ تم یہ سب لکھنا، سب چھاپنا۔۔۔۔ لڑکیوں کو بتانا کہ محبت روگ بن جائے تو زندگی موت بن جاتی ہے۔

ملٹن اور شیلےکی نظمیں مجھے زمین سے اٹھا کر ماورا کردیتی تھیں۔ انمول اور نایاب بنا دیتی تھیں۔۔۔۔ غالب۔۔فیض۔پروین شاکر،سارہ شگفتہ کے واویلے اور فہمیدہ ریاض کی بےباکی مجھے سہارا دیتی تھی۔میرے بدن سے نکل کر میری تصویروں میں اترتی رہتی۔میں لکھتی رہتی،دوڑتی رہتی ، ہانپنے لگتی۔ میں نے اس کے سایے کے ساتھ نبھا کرنے کا سوچا تھا تو کیا۔کر رہی ہوں۔دیکھ لو شہزل۔مجھے کوئی دوسرا مرد چھو ہی نہیں سکتا بچپن میں میرے پورے وجود کو جو” سٹیچو” کر گیا تھا میں اسی حالت میں ہوں۔

” یار تو نے خود کو برباد کر لیاہے۔ وہ تو بھول چکا ہوگا۔ اس کی اپنی خوش باش زندگی ہوگی۔ “

شہزل نے کہتے ہوئے چائے کا خالی کپ رکھا۔وہ لمبا چوڑا انٹرویو کرچکی تھی۔ایک معصوم محبت سے ہاری ہوئی لڑکی سے لے کر آج کی معروف مصورہ، ادیبہ اور شاعرہ کے راز تک اس نے میرے ساتھ سفر کرلیا تھا۔میں نجانے کیا کررہی تھی۔اپنے جیسی لڑکیوں کو ڈرا رہی تھی، پچھتاوے اور تھکن بول رہی تھی یا پھر واقعی یہ محبت تھی۔ اپنا پیغام میری اپنی سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ مسلسل مجھے سمجھاتی رہی۔ میرے ہاتھ پیار سے دبانے لگتی۔ پھر جانے کے ارادے سے اٹھی۔ اپنے اخبارات سمیٹنے لگی۔ تبھی ایک اخبار نیچے گر گیا۔۔۔ وہ اخبار کی شہہ سرخیوں میں ابھر آیا۔شاید میری دیوانگی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر چھوا۔۔۔آج عجیب ہوا ۔میں نے اخبار پر انگلی رکھی تو اس کی تصویر نے میری انگلی کو چھوا۔ یہ خواب نہیں رہا تھا۔وہ وہی تھا۔۔۔اس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہوگئے تھے اور شخصیت مزید نکھر گئی تھی۔ ناک کے تل نے تو مہر ثبت کردی۔ میں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اس کے جیگوار کلاسک بلیک کی خوشبو پھیل گئی۔

شہزل بھی زمین پر بیٹھ گئی۔ ” کیا ہوا زمرہ۔۔۔زمرہ۔۔۔ تم ٹھیک تو ہو؟ “

” یہ ضماد ہے۔۔۔ یہ۔۔۔۔ وہی ہے۔۔۔۔شہزل۔۔وہی میرا محبوب، میری تپسیا۔۔۔جس کی میں منتظر ہوں سالہا سال سے۔ “

“پاگل ہو تم؟ ” وہ پوری قوت سے چلائی۔

” یہ بندہ ضماد چوہدری ہے زمرہ، اس نے اپنی بیوی کو بدچلنی کے شبے میں قتل کردیا ہے اور سننے میں آرہا ہے یہ مقتولہ ثمرہ اس کی تیسری بیوی ہے۔ پہلی دونوں نے خودکشی کی تھی۔ لیکن میرا سوچنا ہے اسی سفاک انسان نے ان کا قتل کیا ہوگا۔ اس کے گھر والے کہتے ہیں یہ ذہنی مریض ہے۔۔۔ نہیں نہیں یہ تو ان بڑے لوگوں کی سزا سے بچنے کے لیے ایک توجیہہ ہوتی ہے۔ کیس لٹکانےکی جھوٹی وجہ۔ “

شہزل بول رہی تھی اور میری آنکھوں سے میری زندگی کے قیمتی ماہ و سال گزر رہے تھے۔بہت تیزی سےجھکڑ چل رہے تھے۔۔۔۔۔۔ عورت محبت کے دھوکے میں جیتی ہے اور اسی دھوکے میں موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔محبت نے مجھے بہت کمزور کردیا تھا۔ مجھے بڑے زور کی ابکائی آئی۔۔۔۔۔۔۔ سارے فرش پر خون کے فوارے الٹ پڑے۔۔۔۔۔۔ ایسے شخص کو میں نے سالہا سال چاہا تھا۔۔۔۔۔۔ ابکائی پھر آنے لگی پھر خون تھوکنے کے بعد میں سنبھلی۔۔۔ جلدی سے اٹھی، بال سمیٹے۔ خود کو سنبھالا۔۔۔۔ درازوں سے بلڈپریشر کی دوا ڈھونڈ کر جلدی سے پھانکی۔بہت سارا پانی پیا۔

مدت سے یہ الجھی ہوئی گتھی نہیں سلجھی

وہ مجھ میں سمایا تھا تو بے گھر ہوا کیسے؟

“شہزل تو کیا وہ عادی مجرم تھا؟ تو کیا اس نے میرے بدن سے بھی عادتاً کھیلا؟ اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے ابھی ہاسپٹل لے چلو، جلدی۔۔۔۔۔ میں اس شخص کو جانتی ہوں صرف میں ہی یہ ہمت کر سکتی ہوں۔میں ہی اس کے خلاف واحدگواہی ہوں۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔ اس بچی کے جذبات کا قتل جو اس نے کیا تھا۔ وہ بھی اس کی فہرست میں ہے۔ ہو سکتا ہے سر فہرست نہ ہو۔۔۔۔لیکن اس بچی نے تو اسے پہلی محبت سمجھا۔۔آہ میری ساری زندگی۔۔۔۔۔۔چلووو مجھے جلدی لے کر چلو شہزل۔۔۔مجھے بچا لینا. میں ثابت کروں گی کہ عورت کمزور نہیں ہوتی۔ محبت بھی کمزور نہیں بنا سکتی اسے۔ “

میں نے پیروں سے کینوس ہٹائے، انتظار کو بانہوں میں سمیٹا۔۔۔۔ دروازے سے باہر پھینکنا تھا اسے،بس بہت ہو چکا۔۔۔ رائیگانی سی رائیگانی ہے۔۔لیکن فرض مجھے اس احساس سے کھینچ کر باہر لے آیا۔” وہ جو میرے ہونے کی گواہی تھا اب میری گواہی اس کی موت بن جائے گی” میں نے خود کو بڑبڑاتے ہوئے،بددعا کرتے ہوئے سنا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930