ہجر ۔۔۔ ثمینہ سید
ہجر
ثمینہ سیــد
بہار رت کی وہ ابتدا تھی
سبھی درختوں کی کونپلیں
پھر نئے سرے سے نکل رہی تھیں
ہر ایک ٹہنی گلاب غنچوں سے سج رہی تھی
بکھر رہی تھی گلوں کی خوشبو
اداس چہرے کی تازگی بھی نکھر رہی تھی
ہر ایک گھر کی منڈیر روشن تھی
جھلملاتے دیوں سے ۔۔۔ مانو
کرن کرن چاندنی چھتوں پر چٹخ رہی تھی
امیدیں مایوس ہو رہی تھیں
جدائی بیٹھی تھی دھرنا مارے
تھی نوحہ خواں بال کھولے اپنے
پلٹ کے دیکھو
سفید کپڑوں میں ہجر لمحہ
اداس ہے اب
امید کے آخری سرے پہ بیٹھا سسک رہا ہے
وہ ہجر لمحہ بھی مر رہا ہے۔
Facebook Comments Box