کچھ لوگ کبھی نہیں مرتے ۔۔۔ ثمینہ سید
کچھ لوگ کبھی نہیں مرتے
ثمینہ سید
منٹو تقسیم شدہ شخص تھا .منتشر ذات کے مختلف پہلو اس کی تحریروں میں الہام کی صورت اترتے. دوسروں کے دکھ اس کے اپنے دکھ بن جاتے. اس کے وجود کو جکڑ لیتے وہ انہی میں زندہ رہتا, سانس لیتا. پڑھائی میں بہت اچھا نہیں تھا میٹرک میں کئی بار فیل ہونے والا اور بمشکل چند تعلیمی مراحل پورے کرنے والا یہ شخص بلا کا ذہین تھا. عمیق نظری سے ماحول میں پنپنے والے ناسور دیکھتا اور کہانیوں میں ڈھالتا جاتا. اپنی پہلی کہانی “تماشا”سے ہی اسے دنیا تماشا لگتی تھی اور لوگ تماشبین.ہر بندہ دوسرے کا تماشا دیکھ رہا تھا.منٹو کے کردار مافوق الفطرت نہیں ہیں. وہ کسی کونے میں بیٹھ کر کہانیاں گھڑتا نہیں تھا اور نہ ہی ان کی تراش خراش کرتا. آنکھیں جو مناظر دیکھتیں وہی رقم کرتا. مبالغہ کرپاتا تو”کالی شلوار, ٹھنڈا گوشت, ہتک,ٹوبہ ٹیک سنگھ اور پھندے جیسے افسانے نہ لکھتا.جن کی وجہ سےاس پرمقدمے چلے.اور اس نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں. شراب کی لت بھی اسی حساسیت کی وجہ سے لگ گئی. وہ جو دوسروں کے درد اپنے بدن پر سہتا تھا. وہ جو “موذیل” کے اندر سے مہرووفا کی مورتی نکال لیتا تھا ذہنی مریض اور مجرم گردانا گیا.یہاں تک کہ اس کا اپنا گھر اس کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کی نذر ہوگیا.
منٹو مرد تھا لیکن عورت کا درد ،اس کی محسوسات اس کے جذبات۔باریک سے باریک بات وہ کیسے سمجھتا تھا.یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے. اس کے افسانوں کی عورت سر سے پاوُں تک بولتی تھی۔ہنستی تھی ۔روتی تھی, تڑپتی تھی اور تو اور دھندا کرنے والی عورت بھی “ہتک ” ایسے محسوس کرتی تھی کہ روم روم میں زہر بھر جاتا تھا تکلیف کے احساس سے بلبلاتی تھی اپنی اصل شکل آئینے میں دیکھتی تو تڑپ اٹھتی تھی۔بری عورت بھی بری انسان نہیں ہے.بے بسی اور مجبوری دھندا کروا رہی ہے۔
منٹو کے افسانے “ہتک “کو نجانے کیوں میں نے سولہ مرتبہ پڑھا سوگندھی کو محسوس ہونے والی ہتک مجھے بھی تکلیف دیتی ہے. اور میں اس تکلیف سے نکلنا نہیں چاہتی اسی لئے اس میں جی رہی ہوں اس پہ بات کرنا چاہتی ہوں.
منٹو کے افسانے”ہتک ” کی سوگندھی دوسروں کی مدد کرتی ہے۔اس نگری میں جہاں کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرتا۔اس کا درد نہیں سمجھتا۔کوئی بھی اس کو اپنا کر دھندے سے نہیں روکتا۔بلکہ طرح طرح کے حربے استعمال کر کے سب اس کے ساتھ گزرا وقت اچھے سے اچھا کرتے تھے.اسے نوچتے کھسوٹتے تھے.وہ سمجھ کر بھی ناسمجھ بنی ہوئی تھی ۔
وہ معصوم سمجھتی تھی. اپنی سب ضرورتیں خود پوری کر رہی ہوں تو کیا کہ اپنا تن من داوُ پہ لگا کے کمائے پیسے سے گزر بسرکر رہی ہوں. مکان کا کرایہ,کھانا ہینا سب خود کررہی ہوں. مادھو اس سے محبت کرتا ہے۔نرا جھوٹ محبت تو کیاہوا.محبت ایسا کینسر ہے جو ماس گلا کے رکھ دیتا ہے لیکن بندہ اسی دھوکے میں رہنا چاہتا ہے.
“مہینے میں ایک بار مادھو پونے سے آتا تھا اسکے ساتھ وقت گزارتاتھا اور ہمیشہ واپس جاتے ہوئے سوگندھی سے کہتا تھا۔دیکھ سوگندھی اگر تو نےپھر سےاپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔اگر تو نے کسی کواپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا۔دیکھ اس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کر دوں گا۔ہاں بتا کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟”
لیکن مادھو نے کبھی خرچ نہیں بھیجا نہ دوبارہ آنے تک سوگندھی کی خبر رکھی بلکہ اکثر اس سے پیسے لے جاتا تھا اپنی کوئی مجبوری بتا کر۔وہ اسی پہ خوش رہتی کہ مادھو اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسے اپنی غیرت سمجھتا ہے. اسی لیے تو وعدے لے کر جاتا ہے. لیکن وعدوں سے پیٹ بھرتا تو وہ “ہتک” کے بدبودار احساس میں کیوں جیتی.
محبت کی خواہش اندھا کر دیتی ہے سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی آنکھوں پر پردہ ڈال کے بندہ مطمئن نظر آنا چاہتا ہے۔اسی دھوکے میں جینا چاہتا ہے. یہی دھوکہ اور کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بنا رہتا ہے.
سوگندھی کی محسوسات۔سیانی بن کے سہیلیوں کو گر بتانے کے انداز ۔چھوٹی سے چھوٹی چیز کی منظر کشی کمال باریکی سے کی گئی ۔
اور سوگندھی کے خارش زدہ کتے کی وفاداری۔اپنے پروں میں منہ چھپائے طوطے کی شرمندگی۔اور سیٹھ جو سوگندھی سے تب ملنے آیا تھا جب وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتی تھی پھر اسے یاد آیا اس نے اپنی بیوہ ہمسائی سے مدد کا وعدہ کیا تھا۔تو اٹھ کر پھولوں والی ساڑھی پہن کر تیار ہونا۔دلال کے ساتھ باہر تک آنا اور سیٹھ نے اس کے چہرے پہ روشنی ڈال کے دیکھا اور “ہونہہ” کہہ کے گاڑی آگے بڑھا لی۔
سوگندھی وہیں مر گئی ہتک کے احساس نے سارے گر فیل کر دیے۔وہ جو تن بیچ کے بھی خود کمانے کا ایک زعم تھا وہ ریت کی طرح مٹھی سے پھسل گیا. راکھ کی طرح ٹھنڈی ہوکر وہیں ڈھیر ہوگئی. ایسی راکھ جس میں چنگاری بھی نہ رہی. زندگی کی رمق کو ہتک کے احساس نے کھا لیا.
منٹو نے کیسے پل پل اپنے کرداروں کو جیا ہے۔کیسے لمحہ لمحہ وہ ان کے ساتھ مرا ہے۔یہ وہی کر سکتا تھا۔مرد کی کمینگی اور طوطاچشمی پر ایک خارش زدہ کتے کو ترجیح دینا صرف منٹو کے قلم کی ہمت ہی ہو سکتی تھی.
واقعی کچھ لوگ کبھی نہیں مرتے۔کہیں نہ کہیں پورے طمطراق سے زندہ ہوجاتے ہیں اور کسی نہ کسی دل میں دھڑکتے رہتے ہیں۔اگر میں زندہ ہوں میرے لفظ سانس لیتے ہیں تو منٹو بھی زندہ ہے۔
بہت ہی عمدہ نظم.