نیا سال بھی آیا، تعذیر نہ بدلی ۔۔۔ ثمینہ سید
غزل
ثمینہ سید
عنوان بدلتے رہے,تحریر نہ بدلی
نیا سال بھی آیا ,تعزیر نہ بدلی
کچھ لوگ بدلتے رہے الفت کی بھی راہیں
اس دل سے ابھی تک تری تصویر نہ بدلی
دھندلا سا ہے سورج بھی یہاں, گردِ سفر بھی
لیکن مرے اس چاند کی تنویر نہ بدلی
لگتا ہے مرے دیس کے ماتھے پہ قلم سے
لکھی تھی جو غیروں نے,وہ تقدیر نہ بدلی
مرنے سے بچے کیسے سرِدار کہ جس نے
لہجے سے بغاوت کی یہ تاثیر نہ بدلی
ہم ایسے سیہ بخت ہیں دنیا میں ثمینہ
تقدیر کو روتے رہے, تدبیر نہ بدلی
Facebook Comments Box