غزل ۔۔۔ ثمینہ سید
غزل
ثمینہ سید
ذرا بارش برستی ہے شگوفے جاگ اٹھتے ہیں
کئی رنگوں کی خوشبو سے دریچے جاگ اٹھتے ہیں
ابھی تک پاوں کی آہٹ سے یہ مٹی شناسا ہے
تمہارے ساتھ چلتی ہوں تو رستے جاگ اٹھتے ہیں
کچھ ایسے روشنی دل میں اترتی ہے قرینے سے
بہت امکاں ترے وعدوں کے صدقے جاگ اٹھتے ہیں
گئے وقتوں میں جو سارے ترے ماتھے کی رونق تھے
مری سوچوں میں وہ اب بھی ستارے جاگ اٹھتے ہیں
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے یونہی بیٹھے بٹھائے ہی
مری آنکھوں میں دریاوں کے دھارے جاگ اٹھتے ہیں
ہمیشہ میں تو لفظوں کو فقط لکھتی ہوں کاغذ پر
تو پھر مصرعوں میں یہ کیسے شرارے جاگ اٹھتے ہیں
Facebook Comments Box