
بے جنم تعبیروں کا اسقاط ۔۔۔ صنوبر الطاف
بے جنم تعبیروں کا اسقاط
صنوبر الطاف
عورتیں طلوع ہوتی ہیں
جکڑے جسموں کے ساتھ
گیلے بستروں سے
جب اُن کے پیروں میں
گڑی نوک دار کیلوں کی کھٹ کھٹ
اندھیرے کو بے آرام کر دیتی ہے
تو سورج کی روشنی چور کی طرح آتی ہے
مگر ان تک نہیں پہنچتی
کہ ان کی آنکھوں پر مکڑی کے جالے تنے ہیں
انھیں زندہ رہنے کے لیے تازہ ہوا کی بھی ضرورت نہیں
کہ ان کے سینوں میں جنگلی بوٹیاں اگتی ہیں
وہ اپنے مقبروں میں
سودا سلف کی پرچیوں پر اپنے کتبے لکھتے
چیونٹیوں کی طرح دن رات مصروف رہتی ہیں
ایک بے کار اور اذیت ناک مشقت میں
جب ان کے دن کو دیمک چاٹ جاتی ہے
وہ شام ہوتے ہی جوان ہونے لگتی ہیں
اور سورج ان کی کوکھ میں غروب ہوجاتا ہے
وہ سربسجود ہونے لگتی ہیں
طویل شب بیداری کے لیے
بے لذت عبادتوں کے لیے