بند گلی کی آشا ۔۔۔ سارا احمد

بند گلی کی آشا

سارااحمد

مَیں مسافر تھا- مَیں برسوں مسافر رہا اور شاید مسافرت ہی میں مَر جاؤں- مجھے بچپن سے قبرستان کے قریب کی بستی اور بھول بھلیوں میں کوئی بند گلی جینے کا استعارہ لگتی تھی- مَیں سمجھتا تھا کُھلے گھروں کی منڈیروں سے آنے والی ہنسی دروازوں کے ساتھ بنے ستونوں کے اوپر جو فانوس لگے ہوتے ہیں ان جیسی ہی سجاوٹی ہوتی ہے- روشنی کی طرح پھوٹنے کے لیے اندھیروں کی محتاج- جس طرح قبرستان دن کے شور میں بھی اتنے ہی چُپ لگتے ہیں جیسے رات کے کسی پہر سوئی ہوئی سڑک کے پہلو میں بند گلی کے اندر کسی کی معدوم مسکراہٹ-

مجھے ابا جی نے مولوی صاحب کے پاس سپارہ پڑھنے کے لیے بٹھایا تو مجھے اسکول کا سبق یاد کرتے ہوئے بھی ہلنے کی عادت پڑ گئی- ماسٹر جی بید کی چھڑی گھماتے ہوئے جس پر دل آتا اس کی کمر پر ضرب لگا دیتے- مجھے مولوی صاحب اور ماسٹر جی دونوں سے بھاگنا پڑا- مجھے اپنے اندر کی دنیا سے پیار ہو گیا جس میں مَیں جب کوئی خواہش کرتا پوری ہو جاتی- اللہ کی کتاب پڑھے بغیر بھی وہ مجھ پر مہربان تھا- ماسٹر جی سے ملنے والی پھٹکار اور مولوی صاحب سے جہنمی ہونے کی دلیل میرے دل نے رَد کر دی- خدا تمام عمر میرے اندر رہا اور خاموش رہ کر بھی مجھے میری باتوں کا جواب ملتا رہا-

مجھے درختوں کی چھاؤں سے عشق تھا- ابا جی کے ڈر کی جگہ بھی خالی کر دیتا تو ماں جی کی محبت دل میں پوری جگہ گھیر لیتی- گاؤں میں ہریالی تھی، چھاؤں تھی اور ماں جی کی محبت- مَیں ترکھان چاچا کے پاس آنے جانے لگا- اس کی دکان پر بیٹھ کر اسے کرسیاں، پیڑھیاں اور رنگلے پلنگ بناتے دیکھنے لگا- وہ رنگوں میں سپنے سجا دیتا- مَیں ان سپنوں میں کھویا وہیں اپنا وقت بِتانے لگا- مجھ پر اباجی کی مار کا اثر نہیں ہوا- ان کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناتے وہ بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ کر شاکر ہو گئے- ماں جی کی محبت کچھ ایسی ہی تھی کہ وہ بھی مجبور تھے- مَیں بھی مجبور تھا لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اپنی جیبوں میں بھر کر گھر لے آتا- مجھے الف لکھنے کی عادت ہو گئی تھی- مَیں الف ان لکڑی کے ٹکڑوں پر لکھتا اور انہیں گاؤں سے باہر ندی میں بہا آتا- میرے بچپن کے تصور نے الف سے اللہ نہیں تراشا تھا- بس الف قاعدے پر درمیان میں نیلی روشنائی سے نمایاں لکھا تھا- مَیں اللہ کی تلاش میں نہیں تھا- ماں کے بقول وہ تو خود ہم پر دھیان لگائے بیٹھا ہے کہ کہیں اس کا بندہ گم نہ ہو جائے- مجھے ماں جی کے بعد کسی ایسے انسان کی تلاش رہی جو مجھے کسی ڈر کے بغیر چاہتا- مجید میرا دوست بھی اپنے ابا کے ڈر سے میری دوستی چھوڑ گیا- اسے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا تھا- میرا دل سوچتا بڑا تو بس اللہ ہے باقی سب صرف آدمی کیوں بننے کا نہیں سوچتے- آدمی کے ماتھے پر کسی رتبے کا ٹھپہ نہ ہو تو کیا وہ دوستی کے بھی قابل نہیں ہوتا- گاؤں کے چوہدری جی اور ان کے بیٹے اپنی دولت کی وجہ سے بڑے آدمی تھے- مولوی صاحب اس لیے بڑے تھے کہ انہیں نکاح اور جنازہ پڑھانا آتا تھا- ان کی پھونکیں متبرک تھیں- ماسٹر جی کے ہاتھ میں بید کی چھڑی اور پیچھے تختہ سیاہ تھا- اباجی کو برداری والوں سے یہ سُننا پڑتا کہ ایک اولاد اور وہ بھی فرمانبردار نہیں- ماں جی میرے ماتھے پر پسینے سے چِپکے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے ہٹا کر محبت بھرا ایک بوسہ رکھتیں اور کہتیں،

” میرا پُتر اللہ لوک ہے-“

گاؤں میں ایک خالی گھر تھا- دروازے پر پڑے تالے کو بھی زنگ لگ چکا تھا- لکڑی کے دروازے کا رنگ ڈاکیے کے برسوں پرانے کپڑے کے تھیلے جیسا تھا- اس گھر میں اگر کبھی ڈاکیا آیا بھی ہو گا تو چِٹھیاں واپس لے جاتا ہو گا- مَیں اکثر شام کے وقت ادھر کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا- یہ گھر بند گلی میں نہیں تھا- گاؤں میں کہیں کوئی بند گلی نہیں تھی- گاؤں والوں کے دِلوں کی طرح راستے ایک دوسرے کے آنگن سے ہو کر گاؤں کی پگڈنڈیوں سے جا ملتے تھے-

مجھے بند گلی اور قبرستان اکثر خواب میں نظر آتے- ماں جی سمجھتیں ماسٹر جی اور مولوی صاب کی مار نے میرے دل و دماغ کو جکڑ لیا تھا- انہیں یہ بھی وہم ہو گیا کہ اس خالی مکان کا آسیب میرے ساتھ سوتا جاگتا تھا- ابا جی ماں جی کو گھوری مار کر اور بھی سہما دیتے- بیچاری ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے اپنی بُکل میں چھپا لیتیں-

مَیں نے ترکھان چاچا سے اس خالی گھر کے بارے میں تب پوچھا جب میری مسیں بھیگ رہی تھیں اور مَیں گاؤں میں اللہ لوک کے نام سے پہچانا جانے لگا تھا-

” سُنا ہے ہجرت کے وقت ایک جاں بہ بلب ہندو بڑھیا نے یہاں سے جانے سے انکار کر دیا تھا-“

” پھر۔۔۔۔؟”

مَیں متجسس تھا-

ترکھان چاچا نے آنکھیں بند کیں جیسے پیچھے کی طرف سفر کر کے کوئی گواہی لانے گیا ہو-

” وہ اسی گھر میں رہ گئی اور اس کے کنبے والے باہر سے تالا لگا کر چلے گئے-“

میرے لیے یہ ساری باتیں ہضم کرنا مشکل تھا- بچپن سے تو ہم نے صرف یہی سُن رکھا تھا کہ یہ گھر کسی ہیجڑے کا تھا- اسے جب کوئی خیرات نہیں دیتا تھا تو وہ بد دعا دیتا تھا- جس کی دعاؤں میں اثر تھا اس کی بددعا بھی عرش ہلا دیتی تھی- گاؤں والوں نے منت سماجت کر کے اسے شہر کی طرف بھیج دیا اور کبھی نہ لوٹ کر آنے پر بھی گھر کو اس کی بد دعا لگنے کے ڈر سے ہمیشہ کے لیے مقفل رہنے دیا-

میرے یار دوست جس راستے مجھے اسکول سے آتے دکھائی دیتے مَیں ان راہوں کی دھول بھی خود پر نہ پڑنے دیتا- مجید نے جس گھڑی اپنی راہ الگ کی تھی مَیں نے اپنی ذات پر کسی اور کی دوستی کا کڑا پہرہ بٹھا دیا تھا- میری گرمیوں کی شکر دوپہریں ترکھان چاچا کی دکان پر گزرتیں- اس کے ساتھ ہی اس کا گھر تھا- چاچی لسی کا ایک گلاس مجھے کبھی دینا نہ بھولتی- وہ ماں جی کی سہیلی تھی- اپنی بے اولادی کا دکھ وہ مجھے پیار کر کے بھول جاتی تھی- ماں جی بھی اس کی وجہ سے میرے دکان پر رہنے سے مطمئن تھیں- ایک نامحسوس جھجک نے مجھے ابا جی کے قریب نہ ہونے دیا- ان کی گوٹا کناری اور سِلمے سَتارے کی گاؤں کی نکڑ پر چھوٹی سی ہٹی تھی- وہ وہاں اپنے کام میں مگن رہتے- مجھے ان کے اس زرق برق کام سے کبھی دلچسپی پیدا نہ ہو سکی- وہ مہینے میں ایک بار شہر کا چکر بھی ضرور لگاتے تھے- چودھریوں کے گھر کی عورتیں فرمائش کر کے ان سے کڑھائی کے لیے رنگین دھاگوں کے ریشمی گولے اور دوپٹوں کے کنارے لگانے کے لیے لپّے اور لیسیں منگواتی تھیں- ماں جی اجرت پر شیفون کے دوپٹوں پر ان کے لیے کڑھائی کرتی تھیں جنہیں وہ بے حد پسند کرتیں اور خوش ہو کر میرے لیے کبھی کرتے کا کوئی مہنگا کپڑا بھی دے دیتیں- میرے کرتوں کے گلوں پر ماں جی کے ہاتھوں کی کڑھائی ہوتی تھی جس سے مجھے ایک عجیب طرح کی مہک آتی-

ایک دن شام کے وقت مَیں اپنی عادت کے مطابق اس سحر زدہ مکان کے قریب گیا تو جی میں نہ جانے کیا آیا کہ اس کے زنگ آلود تالے اور کنڈی کو ہلا کر دیکھا- مجھے یوں محسوس ہوا جیسے تالا تھوڑا سا زور لگانے پر کھل جائے گا- گاؤں کے بچوں کے دلوں میں اگر چودھریوں کی دھاک نہ بیٹھی ہوتی تو اب تک تالا کتنی بار کُھل چکا ہوتا- مَیں بھی ماں جی کی ناراضی اور چودھریوں کے ڈر سے الٹے قدموں پر گھر لوٹ گیا-

گاؤں کے چودھری کے دو بیٹے تھے- دونوں شادی شدہ تھے- ایک کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں- دوسرے کی کوئی اولادِ نرینہ نہیں تھی- اس کی تین بیٹیاں ہی تھیں- ان میں سے منجھلی لڑکی میری ہم عمر تھی- مَیں چودھریوں کے گھر کبھی کڑھائی والے دوپٹے دینے چلا جاتا تھا- ماں جی اکثر مصروف ہوتیں تو مجھے بھیج دیتیں- چھوٹے چودھری کی منجھلی بیٹی ہی زیادہ تر میرے سامنے آتی- میرے کڑھائی والے کرتے کی تعریف کرتی اور میری آنکھوں میں ایک بار ضرور جھانکتی-

اگر اس دن اس نے مجھے ان پڑھ اور گنوار نہ کہا ہوتا تو مَیں گاؤں کی آخری پگڈنڈی پر اکیلا بیٹھ کر کبھی نہ روتا- مَیں ہاڑ کی ایک شکر دوپہر گاؤں کے بوڑھے پیڑوں کی چھاؤں کو ترسی ہوئی نگاہ سے دیکھتا بس اڈے کی طرف چلنے لگا- مَیں جتنا بھی پیچھے مڑ کر دیکھتا پیڑوں کے سائے اپنی آنکھوں سے کھینچ کر ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ نہیں باندھ سکتا تھا- ماں کی دعاؤں کی چھاؤں لیے بس کے سفر میں کسی کی آنکھوں کو اپنے اندر جھانکنے سے روکتا رہا-

گاؤں سے نکل کر صرف دھوپ میرے حصے میں رہ گئی- ماں جی نے چودھریوں کے گھر سے ملنے والے کمی کمین کے طعنے کو میری طرح اپنے دل پر لیا تھا- شہر میں اس کا کوئی دورپار کا رشتہ دار تھا- اس نے مجھے اس کے پاس شہر بھیج دیا- مَیں نے پہلی بار الف سے انسان تراشا تھا جِسے ہمیشہ کسی سہارے کی ضرورت رہتی ہے- مَیں علم باجھوں کَکھ سے بھی ہولا تھا-

قبرستان کے درمیان سے گزر کر ہاتھ میں پکڑے پتے کی پرچی لوگوں کو دکھاتا مَیں ایک بند گلی کے سِرے پر کھڑا تھا-

” قبرستان کے باہر والی سڑک سے ادھر آنا تھا-“

میرے ہاتھ سے جس نے وہ پرچی لے کر اپنی جیب میں رکھی وہی ماں جی کا رشتے میں بھانجا تھا- مجھے قبرستان کے اندر اور باہر کی دنیا میں تفریق کی حد سانسوں کی آمدورفت کے سوا کچھ اور سمجھ نہیں آتی تھی-

بیساکھی پر ہونے کے باوجود وہ مجھ سے تیز قدم تھا- وہ عمر کے جس دور میں تھا وہاں زندگی کی چھب دوسرے معنوں میں نظر آتی ہے لیکن اس کا گھر خالی تھا- اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ تنہائی کو ساتھی بنائے وہ اس بند گلی کے آخری مکان میں رہتا تھا- اس گھر میں مجھے زیادہ تر گملوں میں پودے اور ادھر ادھر کتابیں بکھری نظر آئیں-

” یہ مت خیال کرنا کہ تمہارے آنے سے پہلے مَیں اکیلا رہ رہا تھا-“

مجھے لفظ اکیلا کی سمجھ نہیں آئی- مجھے لفظ ہمیشہ بھٹکا دیتے تھے- مَیں نے اپنے دل کو پھرولا- ماں جی کی دعاؤں میں بند آنکھوں اور چودھریوں کی منجھلی لڑکی کی خاموشیوں سے ناآشنا آنکھوں کے علاوہ وہاں صرف ایک حرف الف تھا-

” اس نے مجھ سے کہا میرے لیے گہنے نہیں بنوا سکتے تو مجھے چھوڑ دو- مَیں نے اس رات چھت سے نیچے خود کو یوں گرا دیا جیسے بادل کا ٹکڑا نوچ کر نیچے پھینک دیا ہو- موت تو اس حادثے سے پہلے ہی ہو گئی تھی-“

اشفاق باؤ نے کھانے کے بعد چائے بناتے ہوئے مجھے بتایا تو مَیں حیران نہیں ہوا- مجھے اس کی آنکھوں میں محبت کا کتبہ نظر آیا- اسی حادثے میں اس کی ٹانگ ٹوٹی تھی- مَیں نے کھانے اور چائے کے برتن دھوئے اور سونے کے لیے کمرے میں جھاڑو لگا کر کاٹھ کباڑ باہر رکھا- یہ چھوٹا سا اسٹور اب میرے رہنے کی جگہ تھی- اب مَیں مسافر ہونے لگا تھا- اپنے اندر کے سفر میں صدیاں بِتانی تھیں اور پھر کسی گھڑی مٹی کے جسم میں بُجھ کر فنا ہو جانا تھا-

” اللہ لوک کے باپ نے نام کیا رکھا تھا؟”

اشفاق باؤ نے سونے سے پہلے میرا نام پوچھا اور مسکرا دیا-

مَیں نے اشفاق باؤ کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ اس سے لکھنا پڑھنا دوبارہ سے شروع کر دیا- وہ ایک پرائیوٹ فرم میں ملازم تھا- صبح آٹھ بجے تیار ہو کر نکلتا تو سورج ڈوبنے سے ذرا پہلے گھر لوٹتا- اس کی بیساکھی کی آواز دروازے کے قریب آتے آتے مَیں بھاگ کر دروازہ کھول دیتا- اس کا دیا ہوا ہر سبق دل لگا کر یاد کرتا- میں اب نورانی قاعدہ پڑھتے ہوئے نہیں ہلتا تھا- کھانا وہ گھر آ کر خود ہی بناتا- باقی گھر کے سارے کام مَیں سرانجام دیتا-

” تجھے کیوں محبت ہوئی تھی؟ “

رات آخری کام ہم دونوں کا چائے پیتے ہوئے ایک دوسرے کے اندر ان کہے سوالوں کی کھوج لگانا تھا- وہ سگریٹ نہیں پیتا تھا-

” اسے میرا سگریٹ پینا پسند نہیں تھا-“

وہ اپنی ٹھکرائی جانے والی محبت کا ماتم اس کی ایک آدھ بات یاد کر کے منا لیتا- مَیں بھی دل میں اُس کے آخری الفاظ دہرانا نہیں بھولتا تھا جس نے مجھے دیکھا باطن کی نگاہ سے اور پرکھنے کے لیے ظاہری آنکھ پر بھروسہ کیا تھا-

” ہو۔۔۔ں۔۔۔۔ں!! “

کبھی کبھی غنودگی میں میرے منہ سے ہوں کی آواز نکلتی تو اشفاق باؤ اپنی بیساکھی سے مجھے ٹہوکا دیتا اور میرے خاموش ہو جانے پر تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر نکل جاتا- اس کی بیساکھی کی آواز سے مَیں خود سے اس کے دورونزدیک ہونے کا فاصلہ بے خیالی میں ناپ لیتا- اب وہ میرا استاد تھا- اس کے ساتھ رہتے، پڑھتے اور سیکھتے مجھے نَو مہینے ہوئے تو ماں کی یاد ستانے لگی-

” تیرا کیا خیال ہے ماں کے علاوہ تجھے کسی نے پَل پَل یاد کیا ہو گا؟

” ہاں چاچا ترکھان یاد کرتا ہو گا اور۔۔۔۔۔!!

” اور کوئی نہیں جھلیا- یہ جو آنکھیں ہوتی ہیں ناں غم ایک سے ہوں تب کسی دوسرے کے چہرے پر دھری جاتی ہیں- راستے کہاں ان آنکھوں کا انتظار سنبھال کر رکھتے ہیں-“

اشفاق باؤ کا اپنا تجربہ تھا- اس کے اپنے دکھ تھے- مَیں بھی اپنی جدائی میں ان آنکھوں کا دکھ دیکھنا چاہتا تھا جس نے انتظار کرنے کا ایک بھی وعدہ نہیں کیا تھا- مجھے ان پڑھ ہونے کا طعنہ دیا تھا- کمی کمین کا طعنہ اب میرے دل سے مندمل ہو چکا تھا- محبت میں بادشاہ کیا اور گدا کیا- کاسہ سونا چاندی کا ہو یا پیتل کا کیا فرق پڑتا ہے مانگنی تو سوالی نے خیرات ہی ہے- محبت کی خیرات مانگتے ہوئے سائل آنکھوں میں جھانکتا ہے یا قدموں کی مٹی میں اپنی انا رکھتا ہے- مَیں نے اپنی انا انتظار کی لَو پر رکھ کر فنا کر دی تھی- اب میری آنکھیں گاؤں کی پگڈنڈیوں کی مٹی پر اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈنا چاہتی تھیں-

” تو شہر کیا لینے آیا تھا؟”

اشفاق باؤ نے تاروں بھرے آسمان کے نیچے میری بُکل میں چاند ڈھونڈنے کی چاہ کی- مَیں اندر باہر سے خالی تھا-

” اس بار تیرا ابا تجھ سے ملنے آئے تو اس کے ساتھ چلے جانا-“

اشفاق باؤ گاؤں کی خوشبو قید کرنا نہیں چاہتا تھا- نَو مہینے مَیں اس کے گھر میں قید رہا تھا- مَیں نے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے وہ کوئی اجنبی تھا- آئینے میں میرے شانوں تک بڑھے بال اور چہرے پر آنے والی بےترتیب داڑھی کی نوکوں نے مجھے بھی اپنا نہ سمجھا-

” تو نے اب تک جتنا پڑھنا لکھنا سیکھا وہ کسی امتحان کے لیے نہیں تھا- تجھے زمانے کی دوڑ میں آگے بھی نہیں نکلنا تھا- میری اور مجید کی طرح باؤ بھی نہیں بننا پھر سیدھی طرح ایک دیہاتی کی طرح اپنی زندگی کیوں نہیں جیتا-“

اشفاق باؤ ٹھیک کہتا تھا- مَیں نے قرآن پڑھنا سیکھا- اپنی زبان لکھنی پڑھنی سیکھی مگر ابھی تک اپنے آپ کو کوئی چِٹھی نہیں لکھی تھی- اشفاق باؤ نے خود کو پہچان کر ایک رستے پر ڈال دیا تھا- اسے جہاں تک لگا وہیں تک اس نے اپنی زندگی جی لی- اب وہ چل رہا تھا بس- ایک بنی بنائی ڈگر پر- اس نے زندگی سے ایک سوال کیا اور بدلے میں اس نے بندے کی اوقات کے مطابق اسے جواب دیا- وہ خوش تھا- اس کے صندوق میں ایک سرخ جوڑا اور گہنے پڑے تھے-

” جانتا ہے مَیں نے کبھی سوچا تھا کہ بند گلی کی آشا کو یہ سب چیزیں دے کر ایک دن یہاں سے نکل جاؤں گا-“

مَیں نے رات کے اس رُکے سمے اس کی طرف حیرت سے دیکھا-

” اشفاق باؤ یہ بند گلی کی آشا کون ہے؟”

میری آواز بھاری تھی-

” جس نے جان بوجھ کر محبت کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ محبت کے لیے پیدا نہیں ہوئی تھی-“

” محبت کون لوگ کرتے ہیں؟”

مَیں اس کے سامنے بیٹھے بیٹھے تھک گیا تھا- اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کی کہانیوں کے دُکھ سُکھ سرہانے رکھ کر کھڑا ہو گیا-

” جنہیں زمانے کے ڈر سے ماں کی بُکل میں چھپنا نہیں پڑتا-“

” اشفاق باؤ۔۔۔۔۔۔-“

میرے منہ سے دُکھ بھری سسکاری نکلی- میرے پیچھے کہرے کی دیوار تھی اور آگے۔۔۔۔۔۔

” تجھے قبرستان کے ساتھ والی بند گلی اچھی لگتی ہے ناں تاکہ پناہ ملنے کی مدت میں وقفہ طویل نہ ہو۔۔۔۔!!”

مَیں نہیں جانتا تھا اشفاق باؤ اپنی محبت کی ناکامی کا بدلہ مجھ سے لے گا- وہ مجھے مار کر میرے اندر سے بند گلی کی آشا کے جنم کا متمنی تھا-

” نہیں مَیں ایک مَرد ہوں بند گلی کی آشا نہیں۔۔۔۔!!”

رات ختم ہونا نہیں چاہتی تھی- غم کی چادر تان کر تماشا دیکھ رہی تھی- بلّی اور چوہے کے کھیل میں بند گلی کے آخری مکان تک چلی آئی تھی- میرا بس چلتا تو باقی کی رات کو ساتھ ہی بسے قبرستان کی کسی قبر میں زندہ گاڑ دیتا- اس دنیا کو صبح کی ضرورت نہیں تھی- الف سے اکیلا لفظ انسان کے لیے ہو تو کتنی گھٹن ہوتی ہے- اشفاق باؤ نَو مہینے اس بند گلی میں مجھے رکھنے کے بعد میرا نیا جنم منانا چاہتا تھا-

مَیں نے کرب سے آسمان کی طرف دیکھا اور اس صندوق کی طرف بڑھا جو اشفاق باؤ کے ارمان سنبھالے تھا- اشفاق باؤ نے نَو مہینے جو مجھ پر محنت کی تھی- آج مجھے مجھ سے ہی ملوانے کی رات تھی- مَیں نے سرخ جوڑا اور گہنے پہنے اور آئینے میں اپنی جھلک دیکھی-

” تیری آنکھیں بالکل میری گڑیا جیسی کیوں ہیں۔۔۔۔؟ “

چودھریوں کی منجھلی لڑکی کے الفاظ میرے کانوں میں گونجے-

دروازے کی دہلیز پر کھڑے اشفاق باؤ سے مَیں نے نظریں چُرا لیں-

“گاؤں اپنی ماں کے پاس جا- دل دُکھے گا تو اسی کوٹھڑی میں جا کر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جایا کرنا- باپ کی ہٹی سنبھال لینا- کوئی چھیڑے تو اسے بددعا مت دینا-“

مَیں نے سُرخ جوڑا اور گہنے اتار کر واپس صندوق میں رکھ دیے اور اشفاق باؤ کے گلے لگ کر سحر تک خوب رویا- سحر ہوئی تھی مگر محبت مَر چکی تھی- بند گلی کے ساتھ والے قبرستان میں اسے دفنا کر گاؤں کی طرف چل پڑا-

مَیں مسافر تھا اور بند گلی کی آشا میری ہمیشہ کے لیے ہمسفر تھی-

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031