نظم ۔۔۔ سارا احمد
نظم
سارااحمد
دوپہر کے چہرے کی چِک
وہ گھر ایک خواب کی مانند
ان دِنوں جاگتا ہے
تین کمرے، دو صحن، امرود کے
پیڑ اور چار لڑکیاں
دوپہر کے چہرے کی چِک اٹھا کر
صحن میں چھڑکاؤ کرتی ہیں
گیلے بالوں کو نہا کر کمر پر
چھوڑ دیتی ہیں
ان کے ہاتھوں میں کڑھائی کے
فریم لب بستہ ہیں
یہ ان پر سندھی ٹانکے کے ساتھ
شیشے ٹانکتی ہیں
ابا جی کے ہنکورے کی آواز پر
بان کی چارپائی پر بیٹھی بیٹھی
ادب واحترام کے حلقے میں
سمٹتی ہیں
ان کی جھکی نظریں دھاگے سے
الجھے بِنا صاف اور سیدھی بات
کہتی ہیں
” ہم شفاف ندیاں ہیں جو بابل
کے آنگن سے ساجن کے دل تک
پیاسی رہتی ہیں”
ایسی لڑکیاں دوپہر کے چہرے
کی چِک اٹھا کر
نظم کے چہرے پر جب چھینٹے
مارتی ہیں تو
وقت کی سانس خوشبودار
ہو جاتی ہے
بند دروازوں اور کھڑکیوں کی
فضا ہوادار ہو جاتی ہے!!