خواب کی زنجیر ۔۔۔ سارا احمد

خواب کی زنجیر

سارا احمد

اتنی آسانی سے نیند نہیں آتی

نیند آہستہ آہستہ خواب کی

زنجیر ہلاتی ہے

سب بکھری ہوئی یادوں کی

ایک کڑی بناتی ہے اور

پھر کہیں آنکھوں میں سماتی ہے

اسے عادت ہے ذرا سی اداسی

میں نیم شب کی تنہائی

گھولنے کی

چاندنی کے پُتلے بنا کر ان سے

دل کی باتیں کھولنے کی

ایک زنجیر ہلتی ہے

ایک پرچھائیں جھلملاتی ہے

سماعتوں میں جھرنے کے بہنے

کی آواز ابھرتی ہے

بہت سا شور جب سینے میں

اٹھتا ہے

تب کہیں اسٹیج کا پردہ گِرتا ہے

خواب کے تعاقب میں شہزادی

سَو برس تک سَو جاتی ہے

نیند گہری ہو جاتی ہے

لیکن سورج کی پہلی کرن

کے ساتھ کہانی کھو جاتی ہے!!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031