قید خانہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔ سارا شگفتہ
قید خانہ شروع ہوتا ہے
سارا شگفتہ
انسان وہ ہے جو بدی کو بھی ایمانداری سے خرچ کرے
ہمارا آدھا دھڑ نیکی ہے اور آدھا دھڑ بدی ہے ۔۔۔
لفظ بڑا آدم خور ہوتا ہے
تم سے ایک قید خانہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔
میرے لب ہلتے تو لوگ ہنستے
مگر میری کٹھ پُتلی مجھ سے خوش تھی ۔۔۔۔
میں پلو سے پیسے چُراتی رہی
میں نے یہ پیسے کبھی خرچ نہیں کئے ، خیرات کر دئے
میں نے مول صراحیاں بھریں
پیاس مجھے مہنگی پڑی ۔۔۔۔
بتانے والوں نے بتایا
تیری کوکھ سے پیدا ہونے والے تیرے صبر سے مر گئے
اور سخی لونڈی مُلک بدر کر دی گئی
جب سے سمندر قریب رہنے لگا ہے
محلے کے بچے دُور تک نہیں جاتے ۔۔۔
ان کی مائیں انہیں بتاتی ہیں
کہ کھیل سے زیادہ گیند مہنگی ہوتی ہے
بتانے والوں نے بتایا
تمہاری ماں کھانس رہی ہے
اور دوا سے خالی شیشی تک چار آنے میں آتی ہے
اُس کا دُکھ یا تو میں ہُوں
یا کسی بھی علاقے کی کوئی ایک قبر
ناگ منی کا بھی ایک تہوار ہوتا ہے
لیکن میں اتنی زہریلی ہو چکی ہوں
کہ اپنے من کے گرد نہیں ناچ سکتی ۔۔۔
مور اپنے پاؤں دیکھ کر روتا ہے
میں اپنے انسان دیکھ کر روتی ہوں۔۔۔
اِن کھیتوں کی اُجرت ہی ہماری بھُوک ہے
جوتی کے ٹُوٹنے پہ ایک کیل ٹھونک دی جاتی ہے
اور ایک سفر ایجاد کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
کسی بچے کو سوچ کے فن پارے ادا کرنے ہوں گے
اور کوئی ٹکسال بہہ جائے گا ۔۔۔۔
سورج نکلنے سے پہلے
اس محلے کا نام تبدیل ہو جائے گا
اور سنگِ میل پہ بچوں کی عمر لکھ دی جائے گی
میں بھی پہلے پیڑوں کی طرح سوچا کرتی تھی
جانے والے کو مبارکباد دیتی تھی
اور آنے والے کو الوداع ۔۔۔
سلاخ تراشو کہ قید کا نیا مفہوم سامنے آئے