استعارے ڈھونڈتا رہتا ہوں میں ۔۔۔ سرمد صہبائی

استعارے ڈھونڈتا رہتا ہوں

……… سرمد صہبائی

استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں

دھوپ میں اڑتی سنہری دھول کے

بھید ست رنگی طلسمی پھول کے

جانے کس کے پاؤں کی مدھم دھمک

دھیان کی دہلیز پر سنتا ہوں میں

استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں

جانے کس رنگت کو چھو کر

شہر میں آتی ہے شام

بھول جاتا ہوں گھروں کے راستے لوگوں کے نام

ایک ان دیکھے نگر کا راستہ

اس سفر میں پوچھتا رہتا ہوں میں

استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں

غیب کے شہروں سے آتی ہے ہوا

پھول سا اڑتا ہے تیرے جسم کا

وصل کے در کھولتی ہیں انگلیاں

خون میں گھلتا ہے تیرا ذائقہ

آتے جاتے موسموں کی اوٹ میں

تیرا چہرہ دیکھتا رہتا ہوں میں

استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930