غزل ۔۔۔ سرمد صہبائی
غزل
سرمد صہبائی
صدائے گریہ جو ہر شام گھر سے آتی ہے
یہ باز گشت ہے دیوار و در سے آتی ہے
کبھی جو آیا نہیں اور کبھی نہ آئے گا
اسی کی چاپ ہر اک رہگزر سے آتی ہے
کڑکتی دھوپ میں بھی دل کو اک تسلی ہے
نہ جانے چھاوں سی کس کے شجر سے آتی ہے
جسے بھی دیکھیں وہ آرائش طلب میں ہے
متاع بے طلبی کس ہنر سے آتی ہے
چمک دمک ہے وہی جگمگاتے رستوں پہ
پھر اتنی تیرگی یارب کدھر سے آتی ہے
یہ کون لوگ ہیں جو ساتھ چل رہے ہیں مرے
کہ بوئے غیر مجھے ہمسفر سے آتی ہے
شب سیاہ میں تازہ نہ ہے چراغ کوئی
جو روشنی ہے کسی چشم تر سے آتی ہے
یہ ارتعاش نفس ہے روش کتابت کی
جو روشنائی ہے داغ جگر سے آتی ہے
دکھائی دیتی ہے تصویر غیب کب سرمد
نظر جو آتی ہے تیری نظر سے آتی ہے۔
Facebook Comments Box