نظم ۔۔۔ سرمد صہبائی
نظم
سرمد صہبائی
ہمیں تو نے پل بھرذرا مڑ کے دیکھا تو ہوتا
جدائی کی دہلیز پر
تیز چلتی ہوا
کیسے تیرے بدن سے لپٹ کر رکی تھی
وہ کس لاڈ سے ہولے ہولے
تری اوڑھنی چھو رہی تھی
نہ جانے ترے کان میں
کیسی سرگوشیاں کر رہی تھی
ستارہ سا ابھرا تھا میری پلک پر
کسی یاد نے تجھ کو رستے میں روکا تھا
دم توڑتی ایک خواہش
ترے پاوں کے دھندلے پڑتے نشاں چومتی تھی
اسی ایک پل بھر میں
جنموں کی خوشبو اڑی تھی
کسی نے ہمیں چھپ کے آواز دی تھی
Facebook Comments Box