ایک سفید پوش نظم ۔۔۔ سرمد صہبائی
ایک سفید پوش نظم
سرمد صہبائی
تجھے کیسے بتاوں
میری اس اجلی دھائی کی تہوں میں
کیسی کیسی حسرتوں کی دھول ہے
کالر کے استر میں
ہزاروں چھوٹی چھوٹی ذلتوں کی سلوٹیں ہیں
پرسکون آنکھوں کے پیچھے
اک ڈراونے خواب کی دہشت چھپی ہے۔
خوش لباسی کے بھرم میں
سانس کے ٹوٹے ہوئے ٹانکے
ادھڑتے زخم
اور جھوٹے دلاسوں کے کھلے پیوند میں کیسے دکھاوں
تجھے کیسے بتاوں
ہاں اگر میرے کبھی کپڑے پھٹیں گے
آنکھ کی پتلی سے تیرے عکس کا سایہ ہٹے گا
میری ساری حسرتوں کی دھول
اجلی شاہراہوں پر اڑے گی
اور ڈراونا خواب آنکھوں سے نکل کر
خواب گاہوں میں تیری نیندوں کو نگلے گا
تجھے یہ عمر بھر سونے نہیں دے گا۔
Facebook Comments Box