تو نے بھی تو دیکھا ہو گا ۔۔۔ سرمد صہبائی
تو نے بھی تو دیکھا ہوگا
( سرمد صہبائی )
تُو نے بھی
تو دیکھا ہو گا
تیری چھتوں پر بھی تو پھیکی
زرد دوپہریں اُتری ہوں گی
تیرے اندر بھی تو خواہشیں اپنے
تیز نوکیلے ناخن کھبوتی ہوں گی
تو نے بھی تو رُوئیں رُوئیں
میں موت کو چلتے دیکھا ہو گا
آہستہ آہستہ جیتے خون کو مرتے
دیکھا ہو گا
گُھٹی ہوئی گلیوں میں تو نے
تنہائی کو ہچکیاں لیتے سُنا
تو ہو گا
تیری پتھرائی آنکھوں نے
اک وہ خواب بھی دیکھا ہو گا
جس کے خوف سے تیرا دل بھی
زور زور سے دھڑکا ہو گا
ناآشنائی کے شہروں میں
اپنے بدن کی تنہائی سے لپٹ
لپٹ کر رویا ہو گا
جھوٹے دلاسوں کی چادر کو
تُو بھی اوڑھ کے سویا ہو گا
میں نے تجھے پہچان لیا ہے
تُو نے بھی تو مجھے کہیں پر
اس سے پہلے دیکھا ہو گا
Facebook Comments Box