خاک و آتش ۔۔۔ ثروت نجیب
خاک و آتش
ثروت نجیب
وہ آگ کے بچاری تھے۔ مقدس آگ کے آہنی الاؤ میں دہکتے انگارے ان کی مرادیں پوری کرتے۔ وہ الاؤ سے دعاؤں کے ہاتھ تاپتے۔ انھیں تائید کی حرارت ملتی جو ان کی زندگیوں کے لیے امرت تھی۔ سالہاسال یافت اور نایافت کے زندانوں میں دوزانو آتش کو بھڑکاتے رہے۔ ان کے بزرگ پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے اترے تو انھیں نیلاہٹ و یخ بستگی سے نجات ملی۔ اِسی خوشی میں نئے دن کا آغاز ہوا۔ گندم کی بالیں اور مچھلی کے ملاپ سے ایک نئی جوت کا جنم ہوا۔
جس کے لہلہاتے ہی سنگلاخ سرزمین سے عقیدت کے نغمے گونجے۔ اُس پہ اگنے والے پہلے گُل کو انھوں نے آبِ جو سے غسل دیا اور مقدس کتاب کی آیتوں کو دہراتے ہوئے آئینے دیکھے۔ تب گلِ لالہ کے کھیت نظرِ بد کے زہر سے بچے ہوئے تھے اور زعفران کے ارغوانی پھولوں کو سنڈیوں نے ویران نہیں کیا تھا۔ دوشیزائیں جب کوکون سے نکلے ابریشم کو بانہوں پہ لپیٹتیں تو انھیں یہ ملال نہ ہوتا کہ اِس کے تاروں سے وہ عمامے بُنے جائیں گے جن کو پہننے والے اِن کی زندگیوں کے سوال ناموں پہ ضرب لگا دیں گے۔ وہ خوش و خنداں تقویم کے پنے پلٹتے دیکھتے رہے۔ وقت ’جس کی رفتار آواز سے زیادہ تیز تھی بدلتا رہا۔
٭٭٭ ٭٭٭
پتھریلے پیادہ رو پہ میں دیر تک چلتا رہا۔ دورویہ دو دنیاؤں کے عین وسط میں۔ ایک بُھربُھرے ٹیلے پہ بیٹھا جہاں سے زندگی کی شروعات سے اختتامیہ دونوں واضح دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں وہ مجھے کہانی سناتے ہیں جو اب خود ایک کہانی ہیں۔
خاموش راستوں کی منزلیں بہت پُرشور ہوتی ہیں۔ ولولے سے بھرپور جیسے زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ جیسے دھرتی پہ اولین انگور کی بیل پھوٹی تھی۔ جیسے پہلی بار تہذیب کے گہوارے سے جَو کی بالیں سرسرائیں اور کھیتوں میں ہل چلائے گئے تھے۔ تب آگ کارِ خیر تھی۔ بھوت پریت کو ڈرانے کے لیے جیسے شمعیں جلاتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے وہ خود سازشوں کی نذر ہو کر ایک خوف بن گئی۔ اگر آگ نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ میں یہی پوچھنے ببول کی جھاڑیوں کو روندتا اُن سے ملنے آیا تھا۔ میں نے اوندھے گھڑوں پہ ہاتھ پھیر کر پوچھا؟ ”وہ چقماق کہاں سے ملے گا جس سے پہلی بار آگ پھوٹی تھی؟ کیا ہم ماضی میں جا کر اُن پتھروں کو پھوڑ دیں تو آگ بجھ جائے گی؟ “
وہ بولا پاگل ہو؟ ”آگ چقماق سے کب پھوٹی تھی وہ تو دو جنتی اپنے ساتھ لائے تھے اور میراث میں ہمارے لیے چھوڑ گئے“۔ ”اففف کتنی تکلیف دہ آگاہی تھی میرے لیے۔ میں لرز گیا۔ جیسے مرنے والے اپنی اولاد کو وصیت میں ان چاہے جیون ساتھی کے پلے باندھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ کئی صدیاں اس میراث کو گلے لگانے والے تابعدار بچوں نے یہ بے جوڑ رشتہ نبھایا۔ کوئی اور بھی تھا جو یہ سوچتا تھا کہ آگ فتنہ ہے۔ اس نے عصا کو تھامے یہ عندیہ دیا کہ آگ شیطان ہے!
اور الاؤ بجھ گئے۔ اوس پڑ گئی ان ساری عبادتوں پہ جو جنت کے حصول کے لیے کی گئیں تھیں۔ وہ قربانیاں شاہین لے اُڑا۔ اور ریاضتوں کو آستین کے سانپ نے ڈس لیا۔ قبل از ایں سب مٹی مٹی کھیلتے تھے۔ مٹی کے دھیلوں کی آڑھتی اتارتے۔ اس کے بت بنا کر انھیں کے سامنے جھک جاتے۔ دراصل وہ اس طرح اندر کی آگ کو بجھاتے تھے۔ آخر مٹی مایا تھی۔ کُل کا تہائی مگر اس پہ متحرک مٹی کے دھیلوں نے سمندروں کو نکیلیں ڈال دیں۔
اسے چیر کے اس میں راستے نکالے۔ اس عصا کا یہ معجزہ بھی سینہ بہ سینہ چلا مگر حنوط شدہ امنگیں پھر سے زندہ ہو گئیں۔ مٹی کا انت بھی مٹی نے کیا۔ یوں عرصہ داز مٹی اور آگ کی کشمکش دور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا چہرہ پرانے پیغام کی تبلیغ کے لیے سامنے آتا رہا۔ پھر ریگستان پہ اک الہی نامہ نازل ہوا ہمیشہ کے لیے بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پہ لانے کے لیے۔ ایک نفیس چرواہے کی زبانی ’جس نے لاٹھی سے مٹی کے تودوں کو توڑا اور کہا! ”حق آ گیا ہے۔ اور باطل۔ “ ”کیا واقعی باطل چلا گیا تھا؟ “
وہ ان اوندھے گھڑوں سے نکل کر ہیولہ سا میرے سامنے تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا!
”ارے کہاں جا سکتا تھا جب یہ کائنات دو قوتوں کے ترازو میں تُلی ہے“ اسے جامِ سرخ کی طرح صحرائی گلیوں میں بہایا گیا مگر جیسے انگور کی کاشت متروک نہ ہوئی۔ جیسے جَو اگتا رہا ویسے باطل بھی پنپتا رہا۔ یہ اور بات ’کچھ عرصہ تک باطل کی کشید ممنوع تھی۔ جب اُس ناصح کا بھی وصال ہو گیا تو پھر سے آگ کا دور شروع ہوا۔
آگ سینوں کے پنجر توڑ کر دھرتی پہ پھیل گئی۔ آتش پرستوں کی خیر۔ جس نے مٹی کے دھیلوں کو پکا کر سرخ کر دیا۔ اب وہ مٹی نہ رہے بلکہ سنگ و خشت میں بدل گئے۔ بظاہر سبز لبادوں میں لپٹے واحدانیت کے داعی مگر اندر سے باقی لوگوں کی طرح آگ پرست۔ انھوں نے اونچے اونچے محل بنائے۔ قلعے تعمیر کیے اور ان قلعوں میں مورچیاں بنا کر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے لگے۔ ہر طرف آگ ہی آگ بھڑکی۔ نفرت ’دشمنی‘ نخوت اور جنگ کی آگ۔
۔ ۔ ۔ طاقت کی اونچی گھاٹی سے ایک سنگ لڑھکتا ہے تو سارے اس کے ساتھ ہی لڑھکنے لگتے۔ یہ جانے بنا کہ اولین سنگ نے حرکت کیوں کی۔ پھر وہ اولین پتھر کی منشا و سوچ پڑھے بغیر وادی میں اُگی گندم کو نیست کر دیتے ہیں۔ وقت دھیرے دھیرے گزرا۔ آگ ’الاؤ سے نکل کر آہن کی نئی نئی صورتوں میں محفوظ ہونے لگی۔ اس عمل کو ترقی کہا گیا۔ ارتقائی دور پہ لکھنے والوں کے قلم راکھ سے تاریخ لکھ لکھ کر ٹوٹنے لگے مگر آتش پرست آگ کو ہوا دیتے رہے۔
اسی آگ نے بستیاں ویران کر دیں۔ بچے اپایج پیدا ہونے لگے اور مردوں کی ایک نسل معدوم ہو چکی مگر نہ باہر کی آگ ٹھنڈی ہوئی نہ اندر کی۔ آتش فشاں اپنی قدرت پہ نازاں ہیں۔ ہلاکتوں کی واضح دلیلیں گھڑ کر وہ زندگی کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔ وہ کون؟ اس کے ہاتھ لرزے ہونٹوں پہ ہلکی سی جنبش ہوئی اور بولا۔ ”ہم“
پھر اس کی آنکھیں آسمان پہ لگ کر پتھرا گئیں۔ وہ واپس اوندھے گھڑوں کے زیریں تہہ خانوں میں چلا گیا۔ میں نے تاریخ سے بوجھل سر اٹھایا ’اردگرد افسوس کا انبار تھا۔ شہر خموشاں پہ حسرتوں کا راج تھا۔ قبرستان میں کتبوں کی جگہ بوٹ اور دوسرے جوتے آویزاں تھے۔ بے شمار خوش گِل‘ گل رُو جنگ کی خوراک بن چکے تھے۔ جو جنگ سے بچ گئے ان میں کوئی حسد کی جلن سے مرا ’کسی کو ”میں“ کی آگ نے آ دبوچا۔ آگ کسی نہ کسی صورت راج کرتی ریی۔
اور سنا ہے بعد از مرگ بھی آگ کا الاؤ ہوگا۔ جنگ گاہیں بارود و آتش سے بظاہر ٹھنڈی ہو چکی تھیں مگر کئی گھروں کے چولہے ہڑپ کر کے جن میں چنگاریاں ابھی بھی سلگ رہی تھیں۔ شنید ہے یہی چولہے پھر سے بھڑکائے جائیں گے۔ پھر سے ایک شعلے سے الاؤ بھڑکیں گے اور تب تک جلتے رہیں گے جب تک گرگٹیں پھونکیں مار مار کر انگاروں کو آگ میں بدلتی رہیں گی۔ یوں آتش پرستی سبھی مذاہب و ادیان میں روزِ اول سے مشترک تھی ’ہے اور رہے گی۔ بقا و دفاع کے نام پہ شعلوں کو فروغ ملتا ریے گا کیونکہ گزری صدیوں میں آگ دریافت کرنے والے کا ضرور وصال ہوا تھا مگر آگ کا نہیں۔