عجائب خانہ ۔۔۔ ثروت زہرا
عجائب خانہ
( ثروت زہرا )
مرا
وجود
دیکھتے ہی دیکھتے
ایک عجائب خانے میں ڈھل رہا ہے
کہ میرے لاشعور نے
آثار قدیمہ کی نادر عنائتوں کو
چھپا کے مجھ سے
مجھ ہی میں جمع کر دیا ہے
یہاں کہیں کسی ریک میں
میرے حنوط شدہ حرف اور لمحے
پڑے ہوئے ہیں
جنہیں نجانے کونسا مصالحہ لگا دیا
گیا ہے
کہ میرے جسم کی حرارت سے بھی وہ
گل نہیں رہے ہیں
ان الماریوں سے
مری ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ساز کی
آواز آرہی ہے
یہ دیکھو اس شیلف میں
میری بچپن کی گڑیا کا
ٹوٹا ہوا جسم سو رہا ہے
کہیں میری سنگھار میز کا آئینہ
چٹخ کے بے رنگ ہو چکاہے
مگر اب بھی !
میرے عذاب لمحوں کا
بکھرا ہوا عکس دے رہا ہے
کہیں کسی سرمے دانی میں
شائد کبھی میں نے اپنی آنکھ چھوڑدی
تھی
جو اس میں سے مجھے گھورتی ہے
اور میری زندگی !
میرے زنگ آلود زیوروں کی آواز میں
دب کے چیختی ہے
اور پائلوں سے ڈر رہی ہے
ایک ٹوٹی ہوئی میری کنگھی سے
اب تک میرے بال الجھے ہوئے ہیں
اور کنارے پہ رکھی ہوئی
صراحی سے پیاس کی بو
رِس رہی ہے
کسی گھڑیال کی ٹوٹی ہوئی سوئی
ایک عذاب لمحے میں مرتعش ہے
اور قریب ہی
میرے جذبوں کے تالاب سے
باس اٹھ رہی ہے
اور تماش بین ‘ جوق در جوق
میرے عجائب خانے کو
دیکھنے کو آرہے ہیں
ان میں سے کوئی تماش بین
اس عجائب خانے کی
سانس لیتی ہوئی موت کو
تضحیک سے دیکھ کر
نظر انداز کرتا ہوا جا رہا ہے
اور کوئی عجائبات کا شوقین
ان تمام اشیاء پہ تحقیق کرکے
اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا ہے
مگر ان کو دھول میں پڑی ہوئی
تاریخ کی الجھی ہوئی ڈور کا
کوئی سرا نہیں مل رہا ہے
اور میں حیران کھڑی ہوئی
اپنے اسی ایک سرے کے ملنے کی منتظر
ہوں
کہ میرا وجود دیکھ دیکھ دیکھ
اک عجائب خانہ میں ڈھل چکا ہے