راکھ ۔۔۔ سیمیں درانی
راکھ
(سیمیں درانی )
کتنے
خدا بپھرے چنگھاڑتے پھرتے ہیں
کالی جبینیں،ناتریشیدا بال
اہنے اپنےشبدوں کی تسبیحیں کرتے دندناتے
چوڑی چھاتیاں لیے
تکبر کے خمییر میں گندھے
فتووں کی تلاش میں کوشاں
ادھر تو
جبیں موحد ہے
دل جھکتا نہیں
روح تڑپتی نہیں
قدم مستقیم ہیں
ہتھیلیاں سلی ہوئی۔
مگر وہ خدا
اپنی بدبو دار
غلییظ بغلوں میں
اہنے بنائے
کبیرہ و،صغیرہ
اعمال نامے لیے
کہ۔جن میں
نیکیوں کے لکھنے کو
سفید اوراق بھی نہیں
سیاہی سیاہی
جو،وہ
اہنے سجدوں کی کالک
اتار کے لکھتے
اور،اپنی پارسا خدائی
کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے
قدموں تلے انکے
قرار دیے گیے
منکر و زانی
مسلتے جارہیے ہیں
لیکن۔
ان خداؤں کی الوہی مناجاتوں کی گونج
انکے قرارردیئےگناہگاروں کی فریادوں
کے الم کو
دبائے جاتی ہے
خدا معاف کرنا نہیں چاہتے
کہ
انکی بنائی جہنمیں خالی ہیں۔
جبکہ خداؤں کی جنتوں کی حوریں
وہ حوریں
کہ جنکو
ونی کی سزا سے خدا بچالائے تھے
اپنی رستی رانوں کے درمیان سے
مسلسل نکلنے والے لہو کو
مرہم بنانے کو
جہنم کی آگ میں
جلائے جانے والے گنہگاروں کی ہڈیوں
کی راکھ کی آس میں
دعاگو،ہیں
کہ اب خدا فیصلہ کریں
اور بھری جہنموں سے
گناہگاروں اور زانیوں کی
راکھ چرا کر وہ
پاکباز خداؤں کے
دیے گیے
ہوس پرست نوکیلے دانتوں سے
بھنبھوڑے ہوئے رستے زخموں کو
جہنمیوں کی خاک
کی مرہم
بنا کر
سکوں پا سکیں۔
اعمالنامے بھرتے خدا
رات کو ایک بار پھر
اپنی اپنی شرع کی پیروی کیلیے
فولادی کشتے پیس،رہے ہیں۔