دَلـی ۔۔۔ سیمیں درانی
دَلّی
سیمیں درانی
وہ رات دیر گئے گھر آیا تو اس کی تھکن دیکھ کر بیوی سب سمجھ گئی۔ فوراً بولی ”آپ ابھی نہائیں گے یا بعد میں؟ گیزر آن ہے ویسے تو، آپ کے لیے کھانا لاتی ہوں۔“
اس نے کھانے سے انکار کر دیا اور بستر پر جا پڑا۔ اور کچھ ہی دیر میں اس کے خراٹوں کی آواز سے کمرہ گونج اْٹھا۔
وہ مطمئن ہو کر اپنا لیپ ٹاپ لے بیٹھی اور انٹرنیٹ پر نئے ڈیزائنز کے ملبوسات کی تصاویر دیکھنی شروع کر دیں۔ صبح اس کو شاپنگ پر جانا تھا آج وہ بھی کچھ تھکی ہوئی تھی کہ سارا دن پارلر میں سر سے پیر تک کی مہنگی ترین ٹریٹ منٹس کرواتی رہی۔ اور شام کو گھر پہنچی تو نوکر باہر بیٹھا گارڈ سے گپ شپ میں مصروف تھا۔ اس کو کھانے کا آرڈر دیا اور خود ریلیکس کرنے کو ٹی وی لگا لیا۔ انسان اپنی ایجادات کے ساتھ ساتھ مصنوعیت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے پہلے یہ بتایا گیا کہ کالا رنگ ہو تو رشتے نہیں آتے، اور لڑکی گھر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہے، اور اگر گورے رنگ کی کریم استعمال کر لے تو راہ چلتا مرد بھی لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ تو شادی تو سمجھو منٹوں کا کھیل ہوئی۔ یہ بات دل میں ایسی بسی کہ سب لگے رنگ گورا کرنے کی کریم استعمال کرنے اور وہ بات بھول گئے جو ہمارے بڑھے بوڑھے بہت پیار سے بولتے تھے۔ ”کالی کرماں والی“ بھلا ایک کریم آپ کے کرم اور قسمت کی کیسے ضامن ہو سکتی ہے۔ یہ انسان ہے، جس کا محبوب مشغلہ اپنی ہی جنس کے ہاتھوں الو بنناہے۔ خود دن بھر میڈیا دیکھ دیکھ کر اْلّو بنتا رہتا ہے، لیکن اگر کوئی الو کا پٹھا پکار دے تو گریبان پکڑ بیٹھتا ہے۔
رومی کو ایک بہترین بیوی قرار دیا جاتا تھا۔ جو شوہر کے گھر سے باہر کے معاملات میں بالکل دخل نہ دیتی، کہا جاتا کہ وہ اس کی کامیابی کی سیڑھی تھی۔ شکل صورت واجبی مگر شوہر دیوانہ تھا اْس کا۔ ہر ایک سے کہتا نہ تھکتا کہ میری بیوی میری بہترین دوست ہے۔ دوسری عورتیں منہ میں انگلیاں ڈالے پھرتیں کہ یا اللہ! ہم سارا دن چولہا جھاڑو کرتی ہیں، بچے سنبھالتی ہیں، میاں کو پل پل فون لگا کر خبر لیتی ہیں کہ کہاں ہیں آپ؟ سب خیر تو ہے نا؟ پھر بھی ہم پاؤں کی جوتی اور یہ،عورت سر کا تاج۔ آخر ایسا کیا ہے اس میں؟
شوہر کے پاس پیسہ بھی تھا اور شکل بھی۔ دوسری جانب رومی،نعیم کے ساتھ جا کر ایسی شاندار شاپنگ کروانے میں مدد کرواتی کہ ہر جوان لڑکی اس کے شوہر کا مہنگا پہناوہ دیکھ کر ریجھ جاتی اور وہ مسکرا پڑتی اپنی شان دار چوائس پر، جو اس نے سارا دن گھوم کر شوہر کے لیے سیلیکٹ کی ہوتی۔ انسان ذات بھی عجیب مخلوق ہے، الماریاں بھرتے ہیں دن رات اور اس بات سے بے خبر کہ کفن نصیب بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہاں بڑھاپے میں ہم جب اللہ کے گھر حاضری پر جاتے ہیں تو ضرور کفن ساتھ لے جاتے ہیں کہ آبِ زم زم سے دھو لیں۔ تاکہ جسم کو راحت ملتی رہے۔ لیکن گارنٹی کفن کے کپڑے کی تو ہوتی ہے مگر اس بات کی نہیں کہ ہم اپنے ہی خریدے زم زم میں دھلے کفن میں دفنائے بھی جائیں گے یا کسی دھماکے کا شکار ہوکر ڈی این اے کے ثبوت کے حصول کے انتظار میں سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔ واہ رے انسان! تیری خوش فہمیاں اور خدائی انداز۔ اپنا کفن خریدنے کا انتظام کرتے ہو، ساتھ نظر ڈالو، شاید کسی کا پنڈا ننگا ہو رہا ہو جسے کفن کی نہیں ایک چادر کی ضرورت ہو۔ مگر ہم اپنی ذات کے خول سے نکلیں تب نا۔ اپنا ہی خدا خود ہیں ہم۔
دونوں میاں بیوی ساتھ ٹی وی دیکھتے تو رومی،شوہر کو ضرور بتاتی کہ آج کل فلاں اداکارہ بہت شان دار جا رہی ہے۔ اتنی تعریف کرتی کہ وہ ریجھ جاتا اور وہ بغیر کسی سڑاپے اور حسد کے نعیم کے سر کی مالش شروع کر دیتی تاکہ اس کے شوہر کو تخیلات میں آسانی ہو۔
بچہ اس کا نہ تھا، اور نہ ہو سکتا تھا۔ بہت علاج کروائے مگر ڈاکٹرز نے صاف انکار کر دیا۔ بس وہ خالی کوکھ لیے جیے جا رہی تھی۔ شوہر باہر ادھر اْدھر منہ مارنے کا عادی تھا اور ان میں سے بیش تر ہڈیاں بیوی ہی اس کے منہ میں ڈالتی۔ واپسی پر شوہر جب موبائل پر ان کی تصاویر لے کر آتا تو بہت فخر سے دیکھتی کہ اس کا کہنا تھا ”لوٹا تو میرے پاس آیا، بات یہی اچھی ہے میرے ہرجائی کی۔“
رومی نے اپنے گھر کو تو کوٹھا نہ بنایا مگر اپنے شوہر کو ایک ”طوائف“ کا درجہ دے دیا عملی طور پہ۔ آج اگر گاڑی، بینک بیلنس، زیور سب کچھ اس کے نام ہے۔ وہ روز اپنے شوہر کو دوسری عورتوں کے ہاتھ بیچتی ہے۔ مگر اپنے وجود کی قیمت اْس کا شوہر خود ادا کرتا ہے اْسے۔ رومی، بیوی سے ایک ”دلّی“ بن گئی اور سدا سہاگن رہنے کی دعائیں کرنا نہیں بھولتی۔