چنبھے دی بوٹی ۔۔۔ شاہین کاظمی
چنبے دی بُوٹی
شاہین کاظمی
بے بے کے ٹھیک تین دن بعد اُس نے بھی مٹی اُوڑھ لی
اور میں اِن کچی قبروں کے سرہانے بیٹھا ڈھلتی شام میں لہو گھلتا دیکھ رہا تھا۔ رگ رگ میں اُترا زہر کب تک سہا جا سکتا ہے۔ اِس میں جب ہجر کی کڑواہٹ اور طویل انتظار کی تلخی بھی شامل ہو تو مٹی کا بت بُھری بُھری ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جاتا ہے۔ عشق نگری کا پینڈا اَوکھا اور جان لیوا ہے۔
’’ جس دے کارن اساں جنم گنوایا باہو یار ملے ہک واری ہووووووو،،
میں نے اُن کے چہروں پر عجیب سی مسکان دیکھی تھی. ایک ایسی مسکان جس پر دونوں جہاں وارے جا سکتے ہیں۔ سرد رُتوں میں ڈھلتی شام کی دھوپ کا روپ بہت وکھرا ہوتا ہے۔
اندر باہر ایک جیسی ٹھنڈک
ایک جیسا اندھیرا
راستوں پر اُونگھتی رات اور وحشت
لیکن اُس ڈھلتی شام کے اُس آخری پل میں وہ مسکان جیسے میرا اندر مُشکبار کر گئی۔
’’ مرشد دا دیدار ہے باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہو،،
بے بے کا پیلا دوپٹہ ہو. اُس کے کونے میں لگی گانٹھ ہو. مادھو لال کی کافیاں ہوں. شاہ لطیف کے بیت ہوں . باہو کی ہو یا پھر احمد دین کی آواز کا سوز
کہانی تو ہر جگہ ایک ہی ہے. ساڑ بھی ایک سا. ایک سا آلاؤ. ایک سی جھلساتی ہوئی آگ جو سینے میں بھڑکتی رہتی ہے۔
میں نے پہلی بار بوڑھے احمد دین کو سنا تو پہلی بار ہی یہ احساس بھی ہوا کہ دل سمندر میں اُٹھنے والا جوار بھاٹا کسی کو دکھائی نہیں دیتا
کوئی جان ہی نہیں سکتا اندر کیسا بیاکُل ہے
’’ تم نے کبھی عشق کیا احمد دین؟،،
میرے سوال پر چونک کر اُس نے میری طرف دیکھا ۔ اُس کی آنکھوں میں دہکتے ہجر کے آلاؤ کا سیک مجھے بھی جلانے لگا۔ میں یکا یک بے چین سا ہو گیا
’’ عشق ساڑ کے سواہ کر دیتا ہے۔ پیروں کا گردا دل کو جا چڑھے تو دل ریتلی مٹی جیسا ہو جاتا ہے
پرزے پرزے
ہاتھوں سے نکلتا ہوا
کُرلاتا
ہوکتا
اور بندہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بس خالی ہاتھ
یہ عشق بڑی کوولی شے ہے باؤ،،
’’ ایسا کیا ہے اِس عشق میں؟،،
میں چاہتا تھا وہ کھلے
کملیا اِس عشق کا بھار تو پتھر بھی نہ سہہ سکے سرمہ ہوگئے۔ پر روح حوصلہ کر گئی کَس کے ایسا پلے باندھا کہ مٹی ہو کر بھی معراج کو جا لیا۔ سدرہ سے آگے تو جبرائیل کے پر بھی جلتے تھے پر عشق اُس پُل صراط سے بھی گزر ہی گیا۔
’’ ایہو موت حیاتی باہو ایہو بھید الہیٰ ہووووووووووو،،
ٹھنڈی ٹھار ہوا کماد کی تیکھی پتیوں کو چھو کر سرگوشیاں کرتی کچے آنگن کی طرف پلٹتی تو پرانی کھڑکیاں ہوکنے لگتیں ۔انگیٹھی میں آگ سرد ہو چلی تھی ۔ احمد دین نے حقہ ایک طرف رکھا میلے سے بستر پر پڑا صافہ اٹھایا او ر کمرے سے باہر نکل گیا۔ ٹاہلی کی پھننگ پرپہلے پہر کا ٹھٹھرا ہوا چاند اٹکا ہوا تھا
’’ حوصلے لاکھ چاہو پر ماندے ہو ہی جاتے ہیں عشق کے گیروے رنگ میں رنگی روحیں حیاتی بھر کُرلاتی رہتی ہیں،،
اُس نے مزید کوئلے انگیٹھی میں جھونک دئیے۔
چوروں نے گاؤں کے ڈھور ڈنگر کھولنے شروع کئے تو گاؤں والوں نے مل کر احمد دین کو چوکیدارا سونپ دیا۔ سارا گاؤں کہتا تھا احمد دین کو بھٹک لگی گئی ہے۔ پوہ کی سرد راتوں میں اُس کی بے قراری قابلِ دید ہوتی۔ لالٹین لے کر گاؤں کی گلیوں میں جاگتے رہنا کی صدائیں بلند کرنے کی بجائے جب وہ اپنی بھاری بھرکم آواز میں ’’ باہو،، کی تان اٹھاتا تو گرم لحافوں میں دُبکے وجود سرد پڑنے لگتے۔ دلوں میں اُٹھتی ہُوک بے کلی بڑھا دیتی۔
احمد دین گاؤں کے دوسرے سرے پر ایک کچے مکان کا مکین تھا ۔ گاؤں والوں نے کھانا بھجوا دیا تو ٹھیک ورنہ حقہ تو تھا ہی اندر ساڑنے کے لئے۔ سوتا لگتا تو وہ بھی اپنی لمبی سی لاٹھی اور لالٹین اٹھا کر گلیوں کی دھول پھانکنے نکل کھڑا ہوتا۔ کبھی کبھی چوپال پر گاؤں کے منچلوں کے ساتھ ایک آدھ چائے کے کپ پر عشق کی گوڑھی رمزیں کھولتا بھی نظر آتا۔
میں اِس علاقے میں نیا نیا آیا تھا۔ ہاؤس جاب کے بعد میری پہلی تقرری اِسی چھوٹے سے ہیلتھ سینٹرمیں ہوئی۔ سینٹر ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اِس لئے بڑے چوہدری جی نے بڑی شفقت سے حویلی کی بیٹھک مجھے رہائش کے لئے پیش کی تو میں انکار نہ کر سکا۔
میں نے پہلی بار احمددین کو ایسی ہی ایک سرد رات میں سُنا تھا ۔ برہا کی آنچ میں جھلسی ہوئی آواز اور باہو کا کلام دل میں ترازو ہو گیا۔ اُس کا اونچا لمبا جھکتا ہوا قد اور مرجھایا ہوا چہرہ گواہ تھا وقت اُسے روند کر گزرا ہے۔
’’ کون تھی وہ؟،،
ایک دن میں نے حوصلہ کر ہی لیا
’’ باؤ زخموں پر کھرنڈ آنے لگے تو چھیلتے نہیں،،
گھنی سفید مونچھوں تلے اُس کے سوکھے لبوں پر پل بھر کو افسردہ سی مسکراہٹ کوندی
’’ ساڑ گہرا ہو تو زخم چھیلتے رہنا ہی جان بچانے کا واحد حل ہوتا ہے،،
میں بھی اُسی کے لہجے میں بولا
’’ باؤ یہ چنبے بُوٹی بڑی اونتری ہوتی ہے۔ اِس کے ننھے ننھے پھولوں سے اٹھتی جادوئی مُشک ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ اُسے وہی محسوس کرتے ہیں جن پر عشق اپنا آپ کھولتا ہے۔عشق بس چپ چپاتے اُن کے ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں وچھوڑے کے کالے ونٹر اُگتے ہیں، جہاں انتظار کا بھکڑا پاؤں لہو لہان کر دیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عشق مجھے ڈنگ گیا اور میں اِس کے وَش سے بے خبر سلگتا رہا،،
اُس کے چہرے پر دکھ کی گہری چھاپ تھی۔ ماضی کی متروک گلیوں کا سفر آسان نہیں ہوتا۔
’’ رحم نورمیری منگ تھی. گلاب کی کولی اور خشبودار پتیوں جیسی. سرگی کے تارے جیسی پاک اور اَن چھوئی.
باؤ میں شاعر نہیں تھا پر اُس کا رنگ روپ مجھے شاعر بنا گیا۔ میرا جی کرتا میں دنیا کی ساری زبانوں کے سب سُچے اور کھرے حرف چُنوں اور اُس کے نام کر دوں ۔ رب سے کئی بار التجا کی
’’ ربّا مجھے لفظ سکھا وہ سُر تال سمجھا جو روح کے بھید روح پر کھول سکے،،
’’ میں کملا یہ کب جانتا تھا کہ عشق کو لفظوں کی محتاجی تو ہے ہی نہیں
یہ تو ایک الگ راگنی ہے
یہ تو وہ اکتارہ ہے جس کے سُر بس آپوں آپ دلوں تک سفر کرتے ہیں
چھید کرتے ہوئے
برماتے ہوئے
درد جتنا گہرا ہو راگنی کے سُر اتنے ہی نتھرے ہوئے اور سُچے ہوتے ہیں،،
’’ عارف دی گل عارف جانے کیا جانے نفسانی ہوووووووووو،،
احمد دین کے سینے کی کوٹھڑی میں اندھیرا تھا. کچی دیواریں اور اُِن پر تنے ہوئے ہجر اور انتظارکے جالے.
ہجر بنیرے پر آن بیٹھے تو اندر فقط ساون بھادوں کی جھڑی رہ جاتی ہے۔ سیلن اور اُمڈتی کائی باقی سارے نقش چاٹ کر خود ہر جگہ قابض ہو جاتی ہے یہی احمد دین کے ساتھ ہوا تھا۔ ہجر نے حیاتی کی ساری فصل برباد کر دی تھی اور اب اِس سیم زدہ زمین پر کھڑے پانی سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ مگر کیا کیا جائے جینا تو ترک نہیں کیا جا سکتا نا ں ۔ سووہ بھی جی رہا تھا۔
’’ پھر لام لگ گئی۔ انگریز سرکار نے ہماری چھٹی منسوخ کرکے حاضری کا حکم دیا ۔ سورج ڈھل رہا تھا جب مجھے تار ملا،،
’’ باؤ تم قسمت پر یقین رکھتے ہو؟،،
احمد دین نے اچانک جھکا ہوا سر اُٹھایا اورمیری طرف دیکھا
’’ شاید،،
میرے لہجے میں بے یقینی تھی
’’ شاید ؟ ایسا کیوں؟،،
وہ مجھ پر نظر گاڑے بیٹھا تھا
’’ تم یقین رکھتے ہو احمد دین؟،،
میں نے اُس کا سوال اُسی پر پلٹا دیا
’’ ہاں،،
اُس کے لہجے میں دُکھن تھی . آنچ تھی .گلہ تھا .احتجاج تھا
’’ قسمت کا ڈنک بہت زہریلا ہوتا ہے پوری عمر زہر نہیں اُترتا. لاکھ جتن کرو پر دنیا کا کوئی منکا اُس زہر کا توڑ نہیں کر سکتا،،
’’ رحم نور نے اپنے پیلے دوپٹے سے لیر پھاڑ کر اُس میں امام ضامن لپیٹا اور میرے بازو پر باندھ دیا…. پر بولی کچھ نہیں۔اُس کا بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔ مگر آنکھیں سوکھی تھیں ۔ کسی ویران باؤلی کی طرح وہ اندرو اندری گھٹتی گئی ۔ اور میں خاموشی سے اُسی پیلے دوپٹے کے کونے پر اپنے آنسو، وعدے اور ہونٹ رکھ کر چلا آیا۔
’’ اُس کے سرد ہاتھ ۔ بجھی ہوئی آنکھیں اور کانپتے ہونٹ کہیں اندر کھُب گئے۔ ایسے کُھبے کہ سُول بن گئے ۔ اندر لیرو لیر ہو گیا ۔ تروپا لگانے والا کوئی نہ تھا چیر بڑھتے گئے پھٹ گہرے ہوتے گئے ۔ یہاں تک کہ بس پھٹ ہی رہ گئے احمد دین کہیں گم ہو گیا،،
اور اس کی بات سُن کر میں بھی کہیں گم ہو گیا۔ میری سانسیں پیلے دوپٹے میں اٹکی رہ گئیں
’’ یارا یہ قسمت امتحان کیوں لیتی ہے؟.
ایک چھوٹی سی خواہش تھی
معصوم سی
ساتھ رہنے اور ساتھ جینے مرنے کی
تخت و تاج کب چاہے تھے
مگر اسے یہ بھی منظور نہ تھا،،
احمد دین کا شکوہ بجا تھا
ہمارا تو پل پل کا ساتھ تھا۔ پہلی بار اسکول جانے سے لے کر میرے فوج میں آنے تک سارا پینڈا ہم نے اکٹھے طے کیا تھا۔
میلے سے جلیبیاں کھاتے ہوئے
ٹانڈوں سے بنی پپنڑیاں بجاتے ہوئے
چولہے پر پکتے گرم گلابی دودھ کی موٹی ملائی میں یہی ٹانڈے ڈال کر دودھ پیتے ہوئے
اَمبیاں اور امرود توڑتے ہوئے
وہیں گلیوں میں لُکن میٹی کھیلتے ہوئے جانے بچپن کب دغا دے گیا
کب عشق بیلے میں سادھو نے اپنا چلّہ پورا کیا اور ہم پر دَم کر دیا.
برسات کی رم جھم
سانجھ سویرے چلتی سجری پروائی
بدلیوں کی اُوٹ سے جھانکتا چیت کا چاند، کھیتوں میں لہراتے گندم کے خوشے، سرسوں کے پیلے کھیت جیسے مایوں کی دلہن جو تن بدن میں صندل کی مُشک بسائے پریتم کے انتظار میں چوکھٹ سے لگی کھڑی ہو
ہر شے جیسے اور سے اور ہوتی گئی ۔ عشق کا نشہ وکھرا ہے اِس کی باس جدا اور رنگ بہت گوڑھا ہے اتنا کہ باقی رنگ نظر ہی نہیں آتے ۔ دن رات عشق کی تسبیح رولتا دل اور پیر بے اختیار دھمال ڈالنے لگتے ہیں،،
وہ ذرا دیر کو رُکا
میں اس بے پڑھے عالم کو دیکھ رہا تھا ۔ عشق بھی کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔ سارے فلسفے خودبخود سمجھ میں آنے لگتے ہیں کوئی راز راز نہیں رہتا۔آج عمر کے اِس حصے میں پہنچ کر مجھے قسمت جیسی حرافہ کی چال بازیوں پر بھی یقین ہے اور عشق کے بے اکسیر زہر پر بھی۔ لیکن اُس دن میں بس حیران تھا ۔ ٹھٹھکا ہوااور دم بخود۔
’’ مجھے یاد ہے جب میں ذرا دیر سے گھر آتا تو وہ بنیرے پر بیٹھی گھنٹوں سڑک پر نظریں جمائے رہتی۔ جب میں گھر آتا تو اُس کی سرمہ بھری آنکھوں میں بہت غصہ ہوتا وہ روٹھ جاتی اور میں اسے مناتے مناتے خود روٹھنے لگتا،،
احمد دین ماضی کے دھندلکوں میں کھویا ہوا تھا مگر میرے ذہن میں پیلے دوپٹے کی لیر اٹکی رہ گئی ۔ اچانک ایک کوندا سا لپکا اور سارے منظر واضع ہوتے چلے گئے ۔ ابا اماں کی زبانی سنیں کہانیاں ایک ایک کرکے اپنا آپ کھولتی گئیں ۔
میں وقت کی چال پر ششدر تھا
حیران اور ساکت۔ ایسے اتفاقات تو صرف قصے کہانیوں میں ہوتے ہیں ۔ اصل زندگی تو بے رحم ہے بہت بے رحم
’’ باؤ جی،،
احمد دین کی آواز مجھے چونکا گئی
’’ خیر تو ہے ناں؟،،
’’ ہاں … ہاں خیر ہی ہے تم کہو کیا کہہ رہے تھے،،
میں سٹپٹا سا گیا
اِس چھنال قسمت نے ایک اور چال چلی۔ رحم نور اکلوتی اولاد تھی میرے مامے کی۔ اُس کے نانکوں کی نظریں اُس پانچ مرلے مکان پر ٹکی ہوئی تھیں یا اُن سنہری پونڈوں پر جو ماما جی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ساتھ لائے تھے ۔
سب کا یہی کہنا تھا فیض محمد کا پوتا ساری جائیداد کیوں لے جائے ۔ کون جانے لام سے واپس بھی آتا ہے یا نہیں ۔ دل وہم پالنے لگے وسوسے گہرے ہوتے گئے اور رشتے کچے،،
میں نے ایک نظر احمددین کو دیکھا وہ سچ کہہ رہا تھا۔ رشتے بہت جلد پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔
دادا بھی بے بے کو بہت چاؤ سے بیا ہ کر لائے تھے ۔ اماں بتاتی ہیں بے بے جوانی میں بہت خوبصورت تھیں ۔ جانے کیا ہواکس کی نظر لگی بیاہ کر آئیں تو دوسرے روز ہی میکے چلی گئیں اور کبھی واپس نہ آئیں ۔۔ میکہ تھا ہی کتنی دورحویلی کے دوسرے سرے پرتو تھا ۔
پر اصل تریڑ تو کہیں روح میں آئی تھی جو ساری عمر رہی ۔ دادا نے چند دن انتظار کیا پھر دوسری شادی رچا کر بیٹھ گئے ۔ میرے ابا اُسی دوسری شادی کی پہلی اولاد تھے ۔ بے بے کی دادا سے تو نہ بنی پر ابا کو تو پالا ہی انھوں نے ۔ اتنا پیار دیا جتنا شاید اماں بھی نہ دے پاتیں یہ اماں خود کہا کرتی تھیں ۔ اسی لئے میرا بھی بے بے سے بڑا گہرا اور سُچا رشتہ تھا۔
’’ میری پنج پھلاں رانی میری ماسی کے پتر کو ویاہ دی گئی ۔ اُس کی پالکی اٹھی اور میں فوج سے بھاگ آیا لیکن قسمت سے نہ بھاگ سکا کورٹ مارشل ہوا یہاں بھی اور وہاں بھی حیاتی نے کالے پانی کی سزا سنا دی میں پھر پلٹ کر گاؤں کی طرف نہیں گیا چالی ورے ہو گئے ۔ کیوں جاتا۔ کس کے لئے جاتا۔ میں نے علاقہ ہی بدل لیا ،،
’’ تن من میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیا ں لیراں ہو،،
’’ ایک بات پوچھوں احمد دین؟،،
بالآخر میں نے ہمت کر ہی لی
’’ تم کوٹلہ شاہ حسین کے ہو؟،،
احمد دین کے بوڑھے چہرے پر ایک عجیب سا رنگ ابھرا
’’ ہاں مگر تم ………..؟ ،،
اُس کی آنکھو ں میں سوال تھے
وہ ماضی کی کچی دیواروں سے اترتے لیاٹوں کی زد میں آکر بری طرح لہو لہان تھا ۔ بوڑھی آنکھوں میں بھرا دھواں اور ہڑکتا سینہ ۔ میں خاموشی سے اٹھا اور جواب دئیے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
صبح صبح موتیے کی کلیاں چن پر پیلے دوپٹے کے پلو میں سمیٹتی بے بے کے چہرے پر ازلی سکون تھا ۔
ملائم کولی جلد اور کانوں میں اڑسیں کلیاں اور پیلا دوپٹہ ۔ میں نے بے بے کو ایسا ہی دیکھا تھا۔ عمر بھر ہجر اوڑھے ہوئے۔ کوئی بھی رُت رہی اُن کے دوپٹے کا رنگ نہ بدلا نہ اُس کے کونے میں لگی گانٹھ کھلی۔
’’ سینے وچ مقام ہے کیندا سانوں مرشد گل سمجھائی ہو،،
میری آواز پر چونک کر بے بے نے مجھے دیکھا اور آنکھیں جھکا لیں لیکن اُن میں امڈنے والی نمی میں دیکھ چکا تھا ۔ میں اُن کے ساتھ چارپائی پر جا بیٹھا ۔ چہرے کی جھریوں میں ایک غیر محسوس ساکرب اور اداسی نظر آتی تھی
’’ خیر ہے بے بے؟،،
’’ ہاں پتر ستے خیراں،،
وہی ازلی دھیما پن اور ٹھہراؤ
’’ مگھر شروع ہو گیا؟،، اُن کی آنکھوں میں سوال تھا
’’ ہاں کل پہلی تھی….. کیوں کیا ہوا؟
میں نے ان کے سردہاتھ تھام لئے
’’ مگھر میں یہاں سے کتنے گھبرو لام پر گئے تھے جو واپس نہیں آئے بس ایسے ہی یاد آگیا،،
میری نظر پیلے دوپٹے کے کونے پر لگی گانٹھ پر پڑی۔ بے بے بیتابی سے اُسے ہتھیلی پر گھما رہی تھیں ۔ میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔آج میں اچھی طرح سمجھ سکتا تھا اِس گانٹھ میں کیا بندھا ہوا ہے۔ اُسی پرانے دوپٹے کی وہ دھجی جس میں کسی کے وعدے، آنسو اور ہونٹوں کا لمس چھپا ہوا تھا۔
’’ بے بے میرے ساتھ چلیں گی؟،، میں نے اچانک ہی فیصلہ کر لیا
’’ کہاں؟،،
’’ نہ بتاؤں تو؟،،
’’ ساری عمر سر جھکا کر سب کی مانی ہے میرے چن،،
میں نے گاڑی روک دی
’’ بے بے وقت پانی کی طرح ہے بہہ جائے تو واپس نہیں آتا پر…… میں رک گیا
’’ پر کیا؟……….،،
میں نے انھیں احمد دین کے دروازے پر چھوڑا
’’آپ اندرجائیں میں کچھ دیرمیں آتاہوں،،
میں پھر رکا
’’ پر یہ کہ کبھی کبھی کچھ گھڑیاں یکجائی کی نصیب میں لکھی ہوتی ہیں،،
چند دنوں بعد بے بے نے پیلا دوپٹہ اتار کر کونے پر لگی گانٹھ کھولی اور آسودگی سے آنکھیں موند لیں.