لاسٹ وش ۔۔۔ شاہین کاظمی
لاسٹ وش
(۔ شاھین کاظمی )
اجنبیٰ شہر کی اجنبیٰ سی گلی
ایک مصروف کوچےکا اک
سرد گوشہ
اور اُس سرد گوشے میں
چپ چاپ، اُداسی کی ماری ہوئی
ایک
اُکھڑی ہوئی کالی دیوار تھی
جس
کے بوسیدہ سینے پہ تحریر تھے
کتنے
تشنہ، ادھورے سے ارمان
اور
حسرتوں کی کتھا
سارے
مقصود، سارے حروفِ نہاں
جن
کو ہونٹوں پہ لانا ہی ممکن نہ تھا
خواب،
مہلت جنہیں زندگی نے نہیں دی
کہ
تعبیر پائیں
جنہیں
حق نہیں تھا کہ تجسیم ہوں
ہم
بھی اُس اجنبیٰ شہر کی
اجنبیٰ
سی گلی کے مُنقش سے کوچے میں موجود تھے
ٹکٹکی
باندھ کر دونوں تکتے رہے
اپنے
اپنے تحیّر کو پہچان کر
اپنی
قسمت کے لکھے کو سچ مان کر
ہم
جدا راستوں پہ مڑے
مڑ
کے پھر رک گئے
رک
کے دیکھا کئے
اور
پھر چل دئیے
اُس
اداسی بھری سرد دیوار پر
تم
نے اشکوں میں دل کے قلم کو ڈبویا
یہ
جملہ لکھا
“لاسٹ وش تھی مری
ہم
سدا ساتھ ہوتے، سدا ساتھ رہتے
مگر
ایسا
بس میں نہ تھا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اور
اچانک
ہی
اِس
سرد دیوار کا دکھ بہت بڑھ گیا
مجھ
کو اپنا سراپا بھی دیوار لگنے لگا