پانچواں موسم ۔۔۔ شاھین کاظمی
.
Shaheen Kazmi, is a Pakistani fiction writer based abroad. She has made sense of fascinating feelings and problems of women with creativity in such a way that gender discrimination does not happen, and the reader feels it on pure human level.
پانچواں موسم
( شاھین کاظمی )
بارش اب بھی زوروں پر تھی، اندھیرے میں بجلی کے کوندے زمین کی طرف لپکتے دکھائی دینے لگے اس نے گہرا سانس لے کر روشنی گل کی اور سونے کے لئے کمرے میں چلی آئی ہاتھ میں پکڑی کتاب بستر پر رکھ کر پردے برابر کئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج نیند جانے کہاں رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ اِس نے بے خیالی میں ورق پلٹا
’’پانچواں موسم’‘
’’زندگی میں پانچواں موسم اُترے تو اُس کا حسن معدوم ہونے لگتا ہے
راستہ کوئی بھی ہو غبار اُٹھتا ہی ہے
انگور کی بیلوں پر سانپ چڑھ جائیں تو شراب زہریلی ہو جا تی ہے
شبِ فتنہ کب کٹے گی؟ میرے آنگن میں کھلے گلِ لالہ پر بارود کی راکھ پڑی ہے تم چراغ بجھتے تک لڑتے رہناِِ
اس نے کتاب بند کر دی، ذہن کہیں اور بھٹک گیا تھا
’’تمہیں لڑنا ہو گا، میرے لئے، اِس مٹی کے لئے’‘
اِس کچے سے کمرے کے ایک کونے میں جھلنگا سی چارپائی پر پڑے وجود میں اگر کچھ زندہ تھا تو اُس کی نیلگوں سمندروں جیسی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ یہ ماجد کی ماں تھی
’’مجھ سے وعدہ کرو تم لڑو گے، جب تک ساری بلائیں ختم نہیں ہو جاتیں تم لڑو گے’‘
بوڑھے سرد ہاتھ ماجد اور نوما کے ہاتھوں پر جمے ہوئے تھے۔۔ آنکھوں میں ابھرتی، ڈوبتی حسرت اور اُمید۔۔۔۔۔ ماجد کا سر بے اختیار ہاں میں ہل گیا
’’ہم لڑیں گے ماں آخری دم تک لڑیں گے’‘
ماجد کی آواز سن کر بوڑھے نیلگوں سمندروں میں جوار بھاٹا اٹھنے لگا۔ ماجد جانتا تھا اِن نئے بدیسی بھیڑیوں سے لڑنا آسان نہ ہو گا۔ جبکہ دھرتی کے سینے پر روبل کی تال پر رقص کرتے سؤروں کے لگائے زخم ابھی تازہ تھے۔۔ سؤروں کو دھرتی سے باہر ہانک تو دیا گیا تھا لیکن امن واپس نہ آ سکا۔
نیا چاند ابھرا تو نئے بھیڑئیے گپھاؤں سے باہر نکل آئے۔۔ اِن کے لے پالکوں نے جب ڈوریاں توڑ کر اپنے آزادانہ رقص کا آغاز کیا تو نائیکہ کی تیوری چڑھ گئی۔ اُس کی نظروں کا زاویہ بدلا تو وہی لے پالک جو بہت چنیدہ تھے نظروں سے گر گئے۔۔ لیکن انھیں بھی پروا کب تھی انھوں نے نئی تال چنی اور دھمال شروع ہو گیا۔ بندوقوں کے سائے میں ابھرتے نغموں میں سوز اُمڈ آیا لہو لہان دھرتی دم بخود تھی ہر طرف بہنے والا خون اپنا تھا۔
جنت کی اور جاتی پگڈنڈیوں پر جب موت اُگنے لگی تو ایک دن وہ اپنے بچے کی انگلی تھامے وہ وہاں سے نکل پڑی۔
’’چلو میرے ساتھ’‘ اس نے ماجد کا ہاتھ تھام لیا
’’نہیں جا سکتا’‘
’’کیوں ؟’‘
’’ماں سے کیا وعدہ نبھانا ہے’‘
’’کس سے لڑو گے ؟ جب دونوں اطراف اپنا ہی سینہ ہو بندوق کس پر چلے گی’‘ اِس کے لہجے میں دکھ تھا
لیکن وہ غلط تھی بندوق کی نال شرارے اُگل رہی تھی سؤروں کی جگہ بھیڑئیے شہر میں دندنانے لگے اُس نے ایک مڑ کر دیکھا شہر ملبے کا ڈھیر تھا۔ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے وہ قافلے کے ساتھ ہو لی۔ یہ اعلیٰ سالاروں کا قافلہ تھا جو سمندر پار جا کر رکا۔۔۔ ماجد کے بغیر زندگی مشکل ضرور تھی نا ممکن نہیں جلد ہی زندگی میں رچاؤ آنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کے شیریں ہونٹوں سے
پھوٹنے والے نغموں کی مدھر لے
آتش شوق بھڑکا دیتی ہے
جیسے خشک گھاس میں گرنے والی ننھی سی چنگاری
زخمی کونج کی پکار
روح میں اُتر رہی ہے
دن رات کے سینے میں جذب ہو رہا ہے
مجھے دیدار کی مے دو
کہ پیاس بڑھ رہی ہے
محبت اگر دلوں میں حلاوت نہ جگائے
تو اِس کے اجزاء میں پاکیزگی ترتیب
اُلٹ گئی ہے
چاند کی ساحر کرنیں
پھول پر منعکس ہیں
زیست انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے
سُچے سُر کے لئے من کا اُجلا ہونا ضروری ہے
من میں کدورتوں کا میل سُر گدلا کر دیتا ہے
اور وہ محض کانوں میں اٹک کے رہ جاتا ہے
اگر سُر من میں اُجالا نہ پھونکے
تو اِس کے اجراء میں پاکیزگی کی ترتیب اُلٹ گئی ہے
نوجوان شاعر کے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا دھماکے سے در و دیوار لرز اٹھے تھے وہ تیزی سے اٹھا اور پتھریلی دیواروں والے سرد تہہ خانے کے کونے میں دھری اکلوتی موم بتی گُل کر دی۔ اچانک اُسے اپنے ہاتھوں پر ننھے ننھے سرد ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا یہ نوما تھی۔ اُس کی بھوری آنکھوں میں خوف تھا جنگی جہاز سے گرنے والی موت نے زندگی سے موت کو جاتی سرحد پر بھیڑ جمع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ بدن ٹکڑوں میں بٹنے لگے نوما کو سینے سے لگائے وہ ٹھنڈی دیوار سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا تھا چھوٹے سے روشن دان کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے شمالی ہوا برف کے ذرات اندر اچھال رہی تھی اُس نے ٹٹول کر پرانا کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔
اچانک خاموشی چھا گئی شاید جہاز واپس جا چکے تھے نوما بھی سو گئی تھی اُس کے سانسوں کی ہلکی سی آواز تہہ خانے کے بھیانک ماحول میں بھلی لگ رہی تھی لطف اللہ نے اُسے بستر پر لٹا دیا اُس کے گالوں پر آنسؤوں کے نشان تھے۔۔ اس نے اپنی ادھوری نظم پھر سے لکھنے کی کوشش کی لیکن ذہن منتشر تھا ساتھ نہ دے سکاکاغذوں کے پلندے میں بہت سی آدھی ادھوری نظمیں اور گیت مکمل ہونے کے منتظر تھے، بالکل اُس کی ادھوری زندگی کی طرح۔
’’مجھے لکھنا ہے اِس سے قبل کہ وقت کے کھنڈر میں زندگی کی چاپ معدوم ہو جائے مجھے لکھنا ہے’‘ وہ بہت تیزی سے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا۔
’’ آنے والوں کو کیسے پتہ چلا گا کہ ہم کس کرب سے گزرے ہیں میں جانتا ہوں اچھا وقت دور نہیں’‘
اس نے نوما کو دیکھا جو ابھی تک سو رہی تھی۔
’’ سوتی رہو میری گڑیا دنیا دکھوں سے بھر گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ تمہارے دیکھنے کے لائق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوتی رہو میری گڑیا’‘
اُس کی خود کلامی جاری تھی
’’لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ دشمن دروازے پر بیٹھا ہو تو کیسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب رگوں سے زندگی نچڑ رہی ہو تو سانس سینے میں اٹک جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔۔۔۔۔۔۔ تم زندگی کو اپنے انداز سے دیکھو گی لیکن نوشتۂ دیوار بھی پڑھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی میں اندھیرے در آئیں تو اُمید مرنے لگتی ہے کسی کو جگنوؤں کی کھوج میں نکلنا ہو گا’‘
سائیں سائیں کرتی ہوا مردہ تنوں کی باس لئے گلی کوچوں میں کر لا رہی تھی۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے کاغذوں کو گھورتا رہ گیا۔
اُس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی اُس نے کھونٹی پر لٹکی میلی سی جیکٹ چڑھائی اور ملبہ ہٹاتے ہوئے باہر رینگ آیا۔
رات ہونے والی بمباری نے بہت تباہی مچائی تھی ہر طرف گہرا سکوت تھا، کھانے کی تلاش میں جیسے ہی وہ نکڑ مڑا گلی کے کونے پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فوجیوں کا دستہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ تیزی سے پلٹا لیکن فوجی اُسے دیکھ چکے تھے۔۔ تڑ تڑ کی تیز آواز کے ساتھ اُسے اپنے شانے اور کمر میں آگ اُترتی ہوئی محسوس ہوئی وہ وہیں ملبے پر ڈھیر ہو گیا آخری خیال جو اُس کے ذہن میں آیا وہ نوما کا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شام اپنے گھونسلوں میں لوٹتی چڑیاں بہت شور کرتیں وہ اِس شور کا عادی تھا۔ لیکن کبھی کبھی جانے کیا ہو جاتا شور اعصاب پر کوڑے برسانے لگتا اور انتہائی بے چین ہو کر چڑیوں پر برس پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی اسی کیفیت کا شکار تھا۔۔۔۔۔۔۔ بیئر کا آخری گھونٹ گلے میں اتار کر اِس نے بوتل کو
پوری طاقت سے درخت کے تنے کی طرف اچھالا اور گالیاں بکنے لگا پارک کے داہنی طرف پرانے بینچ پر لیٹا ہوا بوڑھا ایک دم چونک کر اٹھا کچھ ناقابل فہم انداز میں بڑبڑایا اور پھر سے لیٹ گیا اندھیرا پھیلتے ہی چڑیوں کا شور تھما تو بوڑھا بھی پرسکون ہو گیا۔ چاند نے ہولے سے زمین پر جھانکا تو چاندنی کھلکھلا کر گھاس پر رقص کرنے لگی بوڑھے نے اپنے تھیلے سے پرانا سا وائلن نکالا اور بجانے لگا اِس کی ٹھٹھری ہوئی موٹی بھدی انگلیوں میں دبی وائلن کی سٹک بہت خوبصورتی سے تاروں پر رواں تھی۔
منڈیروں پر اُونگھتے چراغ بجھ جائیں تو
موت کے مہیب سائے در و دیوار پر منڈلانے لگتے ہیں
مسافر راستہ کھوٹا کر لیتے ہیں
اُن میں لہو ڈالتے رہو
کہ روشنی
زندگی کی علامت ہے
بوڑھے کی آواز میں عجیب سا سوز تھا۔ اس کے سال خوردہ چہرے کا ملال بتا رہا تھا کہ زندگی نے اُس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ ملال وائلن سے پھوٹتے نغموں سے بھی عیاں تھا۔ گیت کی دھن بہت عام فہم نہ تھی۔ لیکن پارک سے گزرنے والے اُسے جانے کب سے سن رہے تھے۔۔ بوڑھے کے سامنے پڑے گلاس میں سکے گرتے رہے۔۔ اجنبی دھن پر بجتے نغمے کے سُر فضا میں بکھرتے رہے۔۔ بوڑھے نے سکّوں والاگلاس خالی کیا اور دوبارہ وہیں رکھ دیا وائلن درد اگلتا رہا تھا۔ گھنے پیڑوں کی اوٹ سے افسردہ چاند جھانکتا رہا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی گئی
’’مٹّی کا نوحہ کون لکھے گا؟
جب بیٹے ماں کی چادر نوچ لیں تو کیا قیامت نہیں آئے گی؟
سفید پھولوں کے باغ میں سؤر چرنے لگے ہیں
چولہے پر دھرا کھانا پختہ ہونے کے انتظار میں ہے
لیکن آگ چولہوں میں نہیں شہروں میں بھڑک رہی ہے
مسافر تمہارا سفر کب تمام ہو گا؟
نہ ہی سفر تمام ہوتا ہے اور نہ ہی وحشت کبھی سیراب ہوتی ہے۔۔ اچانک اٹھنے والی آندھی سب کچھ لپیٹ میں لے کر سارے منظر دھندلا دیتی ہے۔۔ اُس دن بھی لمبے انتظار کے بعد بھی لطف اللہ نہ پلٹا تو نوما اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آئی۔ ہر طرف سؤر دندناتے پھر رہے تھے اور پھر بدن در بدن بٹتے ہوئے محض دس سال کی عمر میں ہی وہ بہت کچھ سمجھنے لگی تھی۔ وجود کی ناؤ کا نا ہموار بہاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہچکولے انگ انگ توڑ دیتے ہیں۔۔ آنے والا ہر نیا مسافر ناؤ میں اپنے انداز میں سوار ہوتا ہے۔۔۔۔ جب تک لنگر آنکڑے میں پھنسا ہو ناؤ حرکت نہیں کر سکتی وہ بھی جال میں پھنسی مچھلی کی طرح تڑپ سکتی تھی لیکن آزادی اُس کا مقدر نہیں تھی۔ لیکن پھر ایک دن اچانک لنگر اُٹھا دیا گیا یا شاید گھاٹ بدل دیا گیا تھا۔ اب ایک مسافر تھا اور وہ۔۔۔۔۔ رات دن اُسے ڈھوتے ڈھوتے اُس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔
کچے پھل سخت اور کڑوے ہوتے ہیں۔۔ لیکن اِس کے باوجود کچھ لوگ اِن میں دانت گاڑ دیتے ہیں۔۔ چاہے بعد میں تھوکنا ہی پڑے۔۔ لیکن نہیں وہ شاید کم عمری میں ہی گدرا گئی تھی اس لئے تھوکنے کی نوبت کم ہی آتی۔ البتہ اِس نے تھوکنا سیکھ لیا۔ بھاری بوٹوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اِس کی تھوکنے کی عادت نہ گئی۔
پھر ایک دن اچانک وہ اکلوتا مسافر ایک ایسے گھاٹ پر اُتر گیا جہاں سے آگے کا سفر ممکن نہ تھا۔ نوما نے اُس کے سرد بے جان چہرے کو دیکھا تو اُبکائی روکنا مشکل ہو گیا۔
’’دیکھو چھوٹی لڑکی انجانی منزلوں کا سفر آسان نہیں ہوتا پاؤں میں تھکن اُتر آتی ہے لیکن چلنا تو پڑتا ہے ورنہ چاند پورا ہونے پر بھیڑئیے اپنی اپنی گپھاؤں سے نکل آتے ہیں انھیں تازہ نرم گوشت میں دانت گاڑنا پسند ہے۔۔ اُن کی غرّاہٹیں سانسیں توڑ دیتی ہیں لیکن تم ڈرنا مت’‘
کہیں بہت قریب کوئی جانی پہچانی سرگوشی اُبھری
گو کہ وہ بہت چھوٹی تھی لیکن ذہن کے کسی گوشے میں الفاظ جیسے پیوست ہو گئے تھے۔۔ اِس کی آنکھوں میں نمی اُبھرنے لگی اُسے انجانی منزلوں کی طرف جانا تھا، ہوا میں خون اور بارود کی بُو رچی ہوئی تھی۔
’’ لیکن مجھے ڈرنا نہیں’‘
وہ دھرتی کو اِس سؤروں سے پاک کرنے کے لیے مجاہدین سے جا ملی
’’ میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا اِس وقت اپنے سائے پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے تم انتظار کرو’‘
’’ کب تک؟’‘
اُس کی آواز میں بیقراری تھی
’’ ربانی کے آنے تک’‘
امین وردک آگے بڑھ گیا
کئی چاند اُبھرے اور ڈوبے سؤر کھیت کھلیان تاراج کر رہے تھے موت کا رقص جاری رہا اندھیرے بڑھنے لگے لوگ کم ہوتے جا رہے تھے۔۔
ربانی نے اُسے مجاہدین میں شامل ہونے کا عندیہ دے دیا تھا۔ کیونکہ کہ وہ بدیسی سؤروں کی زبان بہت روانی سے بولتی تھی۔ لیکن اُس کی کوکھ میں پلتا بچہ جسے وہ سفید سؤر کا بچہ کہتی تھی اُس کی راہ روکنے لگا۔
گپھاؤں کے در بند کرنے ہوں گے
ورنہ اندر پلتی بلائیں آبادیاں نابود کر دیں گی
چاندنی کا سحر دماغ اُلٹ دیتا ہے
جنت کی طرف جاتی پگڈنڈیوں پر
موت اُگنے لگے تو
پہچان کم ہو جاتی ہے
وقت کے ہاتھ لکھنے میں مصروف ہیں
الفاظ شرمندگی میں ڈھلتے جاتے ہیں۔۔
شہر میں چاند اُبھر آیا تھا۔ بہت عجیب سا چاند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحرزدہ کر دینے والا لوگ بے سدھ ہونے لگے۔۔ ماجد ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اُس کے جسم میں تشنج اور اینٹھن تھی۔۔ یکایک اُس کی انگلیوں کے سروں پر نوکیلے ناخن نمودار ہوئے۔۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی لمبی تھوتھنی اوپر اٹھائی اور ہوووووو کی لمبی آواز کے ساتھ آبادی کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اُس کے تیز نوکیلے دانت چمک رہے تھے اُس کے ساتھ اُس جیسے اور بھی کئی تھے، گپھاؤں کے در بند نہیں کئے جا سکے تھے پھر ہر روز اُن میں اضافہ ہونے لگا خونخواریاں بڑھنے لگیں۔۔
صدیوں سے سیف الملوک میں رقص کرتی پریوں کے گھنگھرو توڑ دئیے گئے آدمی کی جون بدلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ چاند پورا ہوتے ہی گپھاؤں سے نکلنے والے اپنے نوکیلے دانت اور پنجے نکال کر بھیڑئیے بن جاتے اور اپنے ہی ہم جنسوں کو بھنبھوڑنے لگتے قندھاری اناروں سے ٹپکتا لہو سیف الملوک میں بھرنے لگا اب کی بار بھیڑیوں کے جسم سے اٹھتی باس پرائی نہ تھی۔
اُس ڈھلتی شام پارک میں وائلن پر بجتی دھن نے اُس کے قدم روک لیے دل اتنی زور سے دھڑکا کہ قیامت اُٹھا دی۔ وہ یہاں اِس شہر میں اپنے کسی پرانے ساتھی سے ملنے آئی تھی۔ اُس کا وطن اور یہاں بستے ساتھیوں سے رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو ساری عمر سفید سؤرکا بچہ کہتی اور سمجھتی رہی۔ لیکن اُس روزاُس دوست کے کہنے پراُسے بلا جھجھک آگ میں جھونک دیا۔ آج اُس کی موت کی اطلاع جانے کیوں اُسے بے چین کر گئی۔ تیسری نسل کا لہو بھی دھرتی کے چاک رفو نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بوڑھا گا رہا تھا۔
’’جب عہد فراموش کر دئیے جائیں
محبت مر جائے
یقین باسی ہو جائے
قدم اجنبی سمتوں میں اُٹھنے لگیں
مٹّی سے دغا عام ہو جائے
تو جان لو
کہ زندگی کے اجزاء میں
پاکیزگی کی ترتیب اُلٹ گئی ہے
’’لطف اللہ؟’‘وہ دو زانو بوڑھے کے پاس بیٹھ گئی اُس کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے بوڑھے کی موٹی ٹھٹھری ہوئی انگلیوں میں دبی سٹک ہوا میں معلق رہ گئی
’’ کون ؟’‘ اُس کی آواز میں لرزش تھی
’’ میں نوما’‘سٹک گر چکی تھی بوڑھے کا پورا وجود زلزلے کی زد میں تھا
’’نہیں میں اسماعیل خان۔۔۔۔۔۔۔۔ لطف اللہ تین گولیاں کھا کر کچھ دن زندہ رہ سکا’‘
’’ لیکن تم نے یہ گیت کہاں سے سیکھا؟ یہ تو لطف اللہ کا لکھا ہوا ہے’‘
’’یہ تمہاری امانت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لطف اللہ نے مرتے وقت تمہیں دینے کو کہا تھا’‘
بوڑھے نے ایک پرانی ڈائری نوما کی طرف بڑھائی
جانے کب سے لئے پھر رہا ہوں لگتا نہیں تھا کہ میں امانت حق دار کو پہنچا سکوں گا’‘
اِس نے ڈائری تھام لی، ٹھنڈا ور اندھیرا تہہ خانہ اچانک روشن ہو گیا
’’آکا جان’‘ننھی نوما کے ہاتھ سرد اور آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔۔ نوسال عمر ہی کتنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اُسے آسیب بن کر چمٹ گئی تھیں
’’کچھ نہیں ہو گا میں ہوں نا’‘لطف اللہ نے اُسے سینے میں چھپا لیا بابا کی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھوں میں نمی اترنے لگی
’’تم کیا لکھتے ہو؟’‘نوما کی گہری آنکھیں اُس پر مرکوز تھیں
’’اپنی مٹی کا دکھ اپنے لوگوں کا نوحہ’‘وہ کچھ نہ سمجھی
’’بڑی ہو کر اِسے ضرور پڑھنا تمہیں معلوم ہونا چاہیے ہمارے خواب کیسے بکھرے’‘
نوما نے ڈائری کو کھولا ’’پانچواں موسم’‘ لطف اللہ کے خوبصورت حروف کی سیاہی اُس کی پہچان کی طرح ماند پڑ رہی تھی
’’ آؤ میرے ساتھ ’’نوما نے بوڑھے کی طرف ہاتھ بڑھایا
’’کہاں ؟’‘بوڑھے کی آنکھوں میں استعجاب تھا
’’اپنے گھر اپنی بیٹی کے گھر ’’اُس کی آنکھیں چھلک پڑھیں
بوڑھے نے بیسا کھی ایک طرف رکھی اور نوما کا سہارا لے کر اُٹھ کھڑا ہوا