غزل ۔۔۔ شہناز پروین سحر
غزل
شہناز پروین سحر
رات جس خواب سے الجھنا تھا
دن کی ٹھوکر سے پھر بکھرنا تھا
عکس میں عمر بھر کا ملبہ تھا
آئینہ میرا دُکھ سمجھتا تھا
اس برس ڈھے گئی ہیں دیواریں
پچھلی بارش میں مور ناچا تھا
میری انگلی کو تھام کر اکثر
اِک شجر میرے ساتھ چلتا تھا
سرخ جوڑا خرید لائی ماں
مجھکو بھی لکڑیوں میں جلنا تھا
کھیل کھیلا چھپن چھپائی کا
چھپنے والا کہیں نہ ملتا تھا
زندگی بِک رہی تھی ٹھیلے پر
ٹھیلے والا کہیں چلا گیا تھا
رات آنسو پہن کے بیٹھی تھی
چاند کا رنگ کتنا پیلا تھا
مجھکو لُکنت عبور کرنی تھی
ان کہی بات سے گذرنا تھا
سر کی چادرمجھے عزیز رہی
میرا دکھ سکھ اسی میں لپٹا تھا
بھیڑ میں کر گیا مجھے تنہا
کوئی آواز دے کے چھپ گیا تھا
میری خاموشیاں چٹخنے لگیں
آنکھ میں اشک چیخ اٹھا تھا