سکوت دل پہ تجھے آشکار کر کے بھی ۔۔۔ شائستہ سحر
غزل
( شائستہ سحر )
سکوتِ دل پہ تجھے آشکار کر کے بھی
سلگ رہی ہوں، تجھے ہم کنار کر کے بھی
کسی کی جھولی میں دل، ڈال دیتا اچھا تھا
ملا ہی کیا ہے، تجھے خود سے پیار کر کے بھی
وقار میرا جھلکتا ہے، میری آنکھوں سے
میں معتبر ہوں ترا اعتبار کر کے بھی
یہ کیسی پیاس تھی بجھ نہ سکی کسی صورت
بدن کو جھیل، نظر آبشار کر کے بھی
خزاں رسیدہ مرا دل نہ پا سکا تسکیں
بہار تیری قبا، تار تار کر کے بھی
فصیلِ شب پہ کوئی چاند ہی نہیں چمکا
کسی کے نام، شبِ انتظار کر کے بھی
کیا دھڑکنیں کسی بنئیے سے سود پر لی تھیں
خسارا اور بڑھا ہے، ادھار کر کے بھی
Facebook Comments Box