آخری کہانی ۔۔۔ شائستہ تبسم

آخری کہانی

شائستہ تبسم


وہ ایک بہت اچھی لکھاری تھی۔۔ اُسکی کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی بُکنگ ہو جاتی تھی
۔۔۔۔اُسکے مداح اُسکی کتاب کے کم خوبصورتی کے زیادہ دیوانے تھے
۔۔۔ اُسکے چاہنے والوں میں تمام عمر کے لوگ تھے وہ حسین تھی اور اُسے اِس بات کا ادراک بھی تھا۔۔۔وہ شادی شدہ تھی اور کئی بار کچھ مجنوؤں کی دیوانگی کی وجہ سے اُسے گھر میں بہت کچھ بھگتنا پڑتا تھا ۔۔۔وہ حسین تھی اس میں اُسکا کیا دوش؟؟نہ سر سے کبھی دوپٹہ ڈھلکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ زباں سے یا قلم سے کبھی کوئی ایسی خطا سر زد ہوئی کہ انگلیاں اُٹھیں۔۔حُسن خاموش رہے تو لبھاتا تو ہے ہی لیکن ۔۔ وہ جب بولتی تھی تو اُسکے دیوانوں کے دلوں میں لگی آگ۔۔۔ کچھ اور ہوا ہو جاتی۔۔۔۔ اُسکا حُسن۔۔۔اداس تھا
۔۔۔۔ جب وہ بولتی۔۔۔الفاظ ہمیشہ اُسکے لہجے سے چُغلی کھاتے۔۔۔ مگر دیکھنے والی نگاہوں کو نظر آیا تو ہمشہ۔۔اُسکے رسیلے ہونٹ۔۔شرابی ۔۔ڈولتی۔۔نشیلی آنکھیں۔۔۔اُسکی کھنکھناتی ہنسی جس سے کتنوں کے دل سینے سے نکل کر ہاتھ میں آ جاتے۔۔۔۔۔۔پیار کرنے والوں کے لئیے اُسکی کتابوں میں لکھے الفاظ پیار کے اظہار کا ذریعہ بنتے۔۔۔کیسے لکھ لیتی ہیں آپ ایسا؟ بالکل حقیقت کے جیسا؟؟آپکی کتابوں کی ہر کہانی سے لگتا ہے کہ یہ آپکی ہی زندگی کی کوئی کہانی ہو گی۔۔۔یہ سوال ہمیشہ ہی اُس سے پوچھا جاتا۔اور وہ صرف مُسکرا دیتی۔۔
انہی دنوں اُسکا ایک آخری ناول مارکیٹ میں آیا۔۔۔”آخری کہانی”
آخری ناول کیوں؟؟
ایک ہجوم ٹُوٹ پڑا۔۔۔۔
آخری کیوں؟؟
لکھنا چھوڑ رہی ہیں کیا؟؟
کیوں؟؟
اُسکے مداح یہ جاننے کے لیے بےچین ہو گئے۔۔۔
باقی سب لکھاریوں کو لگا یہ مشہور ہونے کے چونچلے ہیں۔۔
مگر اُسے شہرت سےکیا شغف تھا؟
۔۔۔۔
۔۔۔
ناول کے بعد کچھ دن سناٹا رہا ۔۔۔اور ایک دن ایک ادبی محفل سے بُلاوا آیا۔۔اُس نے سب سرگرمیاں ترک کر دی تھیں ۔۔مگر ایک بہت قریب کے جاننے والوں کے بےحد اصرار پر جانے کی حامی بھر لی
۔۔۔محفل میں اُسکے آتے ہی سبھی کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔۔مگر وہ اِس چمک کو خوب پہچانتی تھی
۔۔۔اُسکا چہرہ یونہی سپاٹ رہا۔۔۔ ایک دو باراُسے خیال آیا کہ اُسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔۔۔محفل کا آغاز ہو چکا تھا ۔۔سب اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔۔۔ اسکی بھی باری آ گئی۔۔۔ وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سنبھل کے قدم اٹھاتی ڈائیس پہ پہنچی اس سے پہلے کہ کچھ بولتی ایک صحافی نے مائیک اٹھا کہ زرا سخت لہجے میں پہلے ہی سوال داغ دیا۔۔۔ آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔۔۔جی ۔۔جی پوچھئیے۔۔۔اگرچہ اسے صحافی کا یوں اسکے بولنے سے پہلے ہی سوال کرنا پسند نہیں آیا ۔مگر وہ برداشت کر گئی
۔۔آپ ایک مشرقی عورت ہیں ۔۔اور آج تک آپکی رومانوی کتابیں بڑے شوق سے پڑی جاتی رہی ہیں مگر اس آخری کتاب میں آپ نے جو بیہودگی برپا کی ہے کیا آپکو اندازہ بھی ہے کہ آپ اس نسل کو کیا بےہودہ پیغام دینا چاہ رہی ہیں؟۔۔۔پُورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔۔۔وہ سوال سُن کر دھک سے رہ گئی۔۔۔۔جی؟؟؟میں سمجھی نہیں ؟کیا بات بےہودہ لگی آپکو؟؟

ٹھہریں میں پڑھ کہ بتاتا ہوں۔۔۔۔۔صفحہ نمبر دس لائین نمبر۔۔۔

رُکیں۔۔۔ٹھہریں۔۔۔میں خود پڑھتی ہوں ۔۔۔غصے سے اس کے جسم کا سارا خون اُسکے چہرے پہ آ گیا۔۔مگر اٗس نے خود کو سنبھالا۔۔۔
صفحہ نمبر دس ۔۔۔۔وہ کیسے یہ الفاظ بھول سکتی تھی ۔۔
اُس نے کتاب کھولی اور زندگی کے اوراق پلٹنے لگی۔۔۔۔

“صبح کے چار بج رہے تھے ۔۔۔وہ ساری رات نہیں سو سکی تھی۔۔۔ اسکا شوہر اپنی پیاس بجھانے کے بعد سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔۔۔اُس نے اپنا چہرہ زرا موڑ کر اُس کی طرف دیکھا۔۔جس کو خدا نے اسکا ساتھی چُنا تھا۔۔
۔۔۔۔ یہ تو وہ چہرہ نہیں تھا جس کی باتیں وہ کتابوں میں کرتی تھی۔۔۔نہ اُسکے سینے میں وہ دل تھا ۔۔جس کی رومان پرور دھڑکنوں کے قصے اُس نے اپنی کہانوں میں لکھے تھے۔۔۔وہ جب سے گھر آیا تھا مسلسل یا تو سگریٹ پی رہا تھا یا فون پہ مصروف تھا ۔۔اُس نے ایک دوبار اُس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔مگر آگے سے ہوں ہاں میں بھی جواب نہیں ملا۔۔۔۔ اُس نے چہرہ دوسری طرف موڑ کیا۔۔۔
ایک آنسو اُسکی انکھ سے بہہ نکلا۔۔۔نہ چاہتے ہوۓ بھی اُسکے منہ سے سسکی کی آواز نکل گئی
۔۔۔کیا بکواس ہے۔۔۔۔ اسنے جونہی اسکی سسکی آواز سُنی ۔۔سگریٹ ایش ٹرے میں زور سے رگڑ ڈالا ۔۔۔حقارت سے اسکی طرف دیکھا اور کمبل اوپر کھینچ کر کروٹ لے کر سو گیا۔۔۔۔ اُس نے اپنے ہونٹوں پہ زور سے ہاتھ رکھ لیا کہ کہیں اُسکی سسکی پھر نہ نکل جاۓ۔۔۔اور پھر۔۔۔۔یونہی آنکھیں بند کئیے وہ اپنی خیالی دنیا میں پہنچ گئی۔۔۔۔جہاں وہ تھی اور اسکی تخلیق کردہ اپنی دنیا۔۔۔جہاں صرف محبت ہی محبت تھی ۔سُنیں۔۔۔ہممم؟؟۔کل جانا ضروری ہے کیا؟؟ اُس نے اداسی سے اُسکے سینے کے بالوں سے کھیلتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔ہاں جانا ضروری ہے۔۔۔اچھا یہ بتاؤ تم نے کچھ اور لکھا
۔۔۔۔ ہاں نا لکھا نا۔۔۔۔آپکے بارے میں
۔۔۔۔اُس نے شرارت سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔اچھا؟کیا لکھا؟؟اور ہولے سے اُسے اور قریب کر کے اسکے ماتھے پہ ایک بوسہ دیتے ہوۓ سرگوشی کی۔۔۔۔کیا کیا لکھتی رہتی ہو میرے بارے میں؟؟وہ سب کچھ جیسا میں چاہتی ہوں۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔سُنو۔۔۔اُس نے اسکی اداس آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا
۔۔۔۔۔۔۔تم ہر وقت اتنی اداس کیوں رہتی ہو؟؟وہ جواب نہیں دے سکی۔۔۔وہ تو شکر ہُوا کہ بالوں کی ایک لٹ چہرے پہ آ گئی اور اُسکی نم آنکھیں چُھپ گئیں ۔۔۔۔مگر وہ بھی بلا کا تیز تھا۔۔ہولے سے اسکے بالوں کو پیچھے ہٹا کر بولا کیا تم میرے ساتھ خوش نہیں ہو؟ہوں نا۔۔کیوں نہیں۔۔۔خوش ہوں۔۔۔بہت خوش۔۔۔۔۔مگرآپ ۔۔۔۔ حقیقت نہیں ہیں۔۔۔۔ آپکا وجود میری آنکھ کُھلتے ہی ختم ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا آپکا ساتھ۔۔۔۔صرف خیالی ہے۔۔”

وہ یہاں پہ آ کہ رُک گئی ۔۔۔

اس میں کیا بےہودگی ہے۔۔بتائیے مجھے؟؟ مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا بےہودگی ہے؟۔۔۔ اپنے شوہر کے پہلو میں لیٹ کر کسی اور کے بارے میں سوچتی ہو اور پوچھتی ہو کہ کیا بےہودگی ہے؟
۔۔بےشرم عورت ۔۔ تم زنا پہ اُکسا رہی ہو لوگوں کو بی بی ۔۔شرم آنی چاہیے تمھیں۔۔۔۔زنا؟؟آپ ہوش میں تو ہیں محترم؟ آپ کیسے مجھ پہ اتنا بھیانک الزام لگا سکتے ہیں۔۔۔ارے چُپ کر۔۔تمھارے جیسی عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے بربادی ہیں۔۔۔تم جیسیاں ہماری بہنوں بیٹیوں کو سیدھے راستے سے بھٹکاتی ہیں۔۔۔ اسکو کس نے بلایا ہے یہاں ؟؟۔۔پورے ہال میں ایک شور برپا ہو گیا۔۔۔پہلے تو چند لوگ تھے اب اسکے خلاف بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تھی وہی جو پہلے اُسکو دیکھ دیکھ کہ آہیں بھر رہے تھے اب فتوے لگانے لگے۔۔خطرے کے پیشِ نظر انتظامیہ نے فوری کاروائی کر کے اسکو پچھلے گیٹ سے نکالا ۔۔۔۔ڈرائیور گاڑی لے کہ فورآ پہچ گیا۔۔گاڑی میں بیٹھ کہ وہ محفوظ تو ہو گئی مگر کانوں میں گونجتی آوازوں کے شور سے اُسکا دم گُھٹنے لگا۔۔۔۔۔پہلے دم گُھٹتا تھا تو وہ لکھتی تھی ۔۔۔آج کے بعد وہ کیا کرے گی۔۔۔۔۔۔۔ آج کے بعد تو وہ خیالوں میں بھی ڈر جاۓ گی ۔۔۔ کسی نے خیالوں پہ بھی فتویٰ لگا دیا تو پھر ؟؟۔۔۔ 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031