روٹی نا گراہ ۔۔۔ شمشاد پروین
“روٹی نا گراہ”
شمشاد پروین
آج پھر دیر ھوگئی۔ اس نے تیسری بار گھڑی کا الارم بند کیا۔ پھر وہ ایک چھلانگ سے بستر سے باھر اور دوسری سے غسل خانے اور تیسری پہ یونیفارم پہن چکی تھی۔ آج پھر اسے بنا ناشتے نوکری پہ جانا پڑا۔ وہ ایک سرکاری ہسپتال میں نرس کا کام کرتی تھی۔ ۔بنیادی تربیت کی بعد اب میڈوایفری کر رہی تھی جو کہ ایک سال کا کورس تھا۔ آج کل وہ لیبر روم میں تھی۔ ہر روز جب وہ ہسپتال سے منسلک اپنے نرسنگ ھوسٹل سے وارڈ تک آتی تو راستے میں آسے کبھی کسی مریضہ کی ماں یا شوھر یا کوئی اور رشتہ دار سلام کے بعد کہتے کہ سسٹر ھماری بیٹی یا بیوی اندر ھے آپ جب اندر جائیں تو ھماری طرف سے تسلی دیں کبھی کوئی ماں تعویذ پکڑا دیتی کہ اسے میری بیٹی کے بازو پہ باندھ دیں، یہ سب روز کا معمول تھا وہ کسی کو تسلی دیتی کسی سے تعویذ لیتی ھوئی آگے بڑھ جاتی۔ آگے پوسٹ نیٹل وارڈ تھا، جہاں کچھ عورتیں بچوں کی غذائی ضروریات پوری کر رہی تھیں ۔ اور کچھ کی ماں یا کوئی رشتے دار عورت بچے کو سنبھالنے میں مدد کرتی تھی۔ اس سے آگے نرسری تھی جہاں وہ بچے رکھے جاتے ہیں جن کی پیدائش مشکل زچگی کے نتیجے میں ہوئی یا بعد از پیدائش انھیں کوئی انفیکشن ھوئی لہٰذا وہ خاص نگہداشت میں رکھے جاتے ہیں۔ اور ماوں کو بھی سکھایا جاتا ہے کہ ایسے بچوں کی نگہداشت وہ کیسے کریں۔ اس وارڈ کے ساتھ ہی لیبر روم شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہیں اس نے اپنی ڈیوٹی کرنا تھی۔
یہاں کچھ عورتیں کمر پکڑے کراہ رہی تھیں، کچھ کو دوسری عورتیں سہلا رہی تھیں۔ کچھ ذرا چہل قدمی کرکے اپنے تخلیق کے مرحلے کو آسان کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ ان سب کی آنکھوں میں ایک عجیب ڈر اور خوف تھا جیسے تخلیق کے عمل کا ڈر اس سے گزر جانے یا رہ جانے کا خوف، ایک انجانا خوف جس سے کوئی بھی تخلیق کار اپنی تخلیق مکمل ہونے سے پہلے کی حالت میں گزرتا ھے ۔
پھر انھی درد سے کراہتی عورتوں کو اندر بلایا جاتا ھے تا کہ نرس یا ڈاکٹر اس کا معائینہ کرکے بتائے کہ بچے کے آنے میں کتنا وقت ھے تجربہ کار نرس یا ڈاکٹر عموما” صحیح اندازہ لگا کر بتا دیتے ہیں پیدائش میں کتنا وقت ہے، پیدائش نارمل ہو گی یا آپریشن کرنا پڑے گا۔ لیبر روم میں پانچ بیڈ تھے اور یہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ کیونکہ یہ ایک تدریسی ہسپتال بھی ہے یہاں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ زیرِ تربیت نرسیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ جنھیں اپنے کورس کی تکمیل کے لیے ایک مخصوص تعداد میں ڈیلیوری کرنا ہوتی ہے۔ سو ھر ایک اپنے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ھوتا ھے۔
آج اس کی ڈیوٹی دو عورتوں پر تھی۔ عورتیں اس لیے کہ تخلیق کار تو مریض نہیں ہوتے تو جو عورتیں اسے ملیں ان میں سے ایک تو اس عمل سے آج پہلی بار گزررہی تھی اور دوسری وہ جو اس عمل سے کئی بار گزر چکی ہے۔جو پہلی دفع ماں بن رہی تھی وہ بہت زیادہ خوف زدہ تھی، ان دیکھا خوف، طوفان کے آنے سے پہلے کا خوف، اسے جب بھی درد آتی بہت شور کرتی، چیخیں مارتی، وہ اسے بتاتی کہ درد کے مرحلے سے کیسے گزرا جائے اور جب درد نہ ہو تو لمبے اور گہرے سانس لے لیکن تجربہ نہ ہونے کے باعث عورت اس کی بات پوری طرح سمجھ نھیں پاتی تھی۔ درد کی ہر لہر کے ساتھ وہی شور شروع ہو جاتا۔ پھر اس کا صبر جواب دے گیا اور اس نےکہا سسٹر خدا کہ لیے میرا بچہ کاٹ کے باہر نکال دو مجھے نہیں چاہیے اسی چیخم دھاڑ میں بچے کی پیداش ھو گئی اور بچے کے رونے کی پہلی آواز پہ مامتا نہال ہو گئی۔ پتہ نہیں تخلیق کی کون سی سیڑھی تھی جس پہ چڑھنے سے پہلے اس نے کہا کہ اسے کاٹ کے نکال دو۔ پھر وہ دوسرے تخلیق کار یعنی رب کے قریب ہوئی کہ اگلے لمحے اس کی تخلیق ظہور میں آئی اور وہ اپنی تخلیق پر صدقے واری ھو گئی ۔
اب وہ دوسری عورت کے پاس آئی جو کہ اس عمل سے کوئی آٹھ دفعہ گزر چکی تھی اس نے اس کی آرام دہ پوزیشن بنائی اورمعاینہ کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ بچے کی پیدائش کا وقت بہت قریب ھے۔ اس نے عورت کےچہرے پہ نظر ڈالی تو اسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس کے چہرے پر تکلیف سے زیادہ ناخوشی کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ آنکھں ویران، منہ میں چند دانتوں کی عدم موجودگی بڑھاپے کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔ ۔عورت کا چہرہ مجبوری کی مجسم صورت تھا۔ جسے محسوس کرکے اسے بے حد تکلیف ہوئی۔ بچے کی پیدایش کے بعد اس نے اپنے تجسس سے مجبور ہو کر عورت سے کہا کہ آخر اسے اتنے بچے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے یہ بات شاید اس لیے بھی کی تھی کہ عورت کو دیکھ کر اس کی خراب معاشی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ عورت کا جواب مڈ وائفری کی تربیت لیتی اس نرس کو ادراک کے ایک اور جہان میں لے گیا۔ عورت نے بے بسی سے اپنی مادری زبان میں کہا، ” اے سسٹر، اینوی روٹی نا گراہ کون دینا؟” [اے سسٹر، اس کے بغیر روٹی کا نوالہ کون دیتا ہے۔]
Top of Form