غزل ۔۔۔ شہلا شہناز
غزل
(شہلا شہناز)
کم وصل غزالوں کی طبیعت ہے مرے پاس
زردائی ہوئی پهرتی ہوں وحشت ہے مرے پاس
میں تجھ سے بہت دور دهکیلی
ہوئی کب ہوں
اپنی طرف آنے کی اجازت ہے مرے پاس
بوجهل نہیں لگتی مرے مصرعے
کی شباہت
اک رنگ پئے رد ثقالت ہے مرے پاس
کیا کچھ نہیں بازار تمنا میں
فراواں
یک بوسہ و دو اشک کی قیمت ہے مرے پاس
اس بار سمندر نے بلایا نہیں
مجھ کو
اس بار کسی دشت کی دعوت ہے مرے پاس
میں موج بلا خیز سے کم پر
نہیں راضی
دشواری یہی ہے کہ سہولت ہے مرے پاس
لگتا تو نہیں میں کسی منزل
کے لیے ہوں
تنہائی کی بے انت مسافت ہے مرے پاس
Facebook Comments Box