ملن ۔۔۔ شفا چودھری

ملن

 شفا چودھری

مجھے خوابوں سے عاری سفید بے نور آنکھوں سے ڈر لگتا تھا۔ دیکھنے والے کہتے تھے تم ہنستے ہو تو تمہاری آنکھوں میں جگنو رقص کرتے ہیں۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ یہ خواب ہی ہیں جو جگنو بن کر میری آنکھوں کی چمک بڑھا دیتے ہیں یہ کچھ اور نہیں میرے دل کی زمین میں اگے سنہری خواب ہیں جن کا عکس میری آنکھوں میں آ سمایا تھا۔ خواب روٹھ جاتے تو لوگوں کی گھاگ نگاہوں کو بھی زبان مل جاتی اور وہ طرح طرح کے طعن آمیز سوالات سے خوابوں کی راکھ اڑانے سے باز نہ آتے۔

کہنے والے کہتے تھے تمہارے لبوں کے گوشوں سے مسکراہٹ کے چشمے پھوٹتے ہیں اور زندگی مسکرا اٹھتی ہے۔ میں کبھی خود کو ایسی صورتحال میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا کہ زندگی کو مجھے فریب دینے کا موقع ملتا اور وہ مسکراتے مسکراتے مجھ سے دور ہو جاتی اور میں اس کی مسکراہٹ میں الجھ کر رہ جاتا۔

جب زندگی دور ہوتی ہے تو خالی جسم رہ جاتا ہے اور پھر وہ ہر احساس سے عاری ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی درد ہوتا ہے اور نہ کوئی خوش کن منظر ہنساتا ہے۔

مجھے خواب ہنساتے ہیں اور وہ نہیں رہیں تو ہر احساس کہیں کھو سا جائے۔

وہ خود رو بیل کی طرح کب میرے تنے کے گرد لپٹنا شروع ہوئی مجھے کچھ خبر نہ ہو سکی۔

مجھے گردن جھکا کر دیکھنے کی فرصت ہی کب تھی۔

میری روشن نگاہیں ہمہ وقت آسمان کی بلندیوں سے لپٹی رہتی تھیں۔ ستارے مجھ سے سرگوشیاں کرتے، چاندنی مجھے تکتی رہتی ، مجھے پستیوں سے کیا سروکار ہو سکتا تھا..

اس بیل نے کب میرے میرے قدموں کو جکڑا کب دھیرے دھیرے میرے تنے کے گرد اپنے بازو پھیلائے میں نہ جان سکا ۔

علم تو تب ہوا جب میرے وجود کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور وہ گردن تک آ پہنچی۔

میری ہموار چلتی سانسیں بے ہنگم ہوئیں تو ایک پل کو میں نے اپنی نگاہیں آسمان کی وسعتوں سے ہٹائیں۔

“اوہ میرے خدا!” میرے منہ سے نکلا۔

“یہ سب کیسے اور کیوں ؟” میں رو دینے کو تھا۔

“میں روتے ہوئے اچھا لگوں گا کیا؟” یہ خیال ایک لمحے کو میرے ذہن کے پردوں سے لپٹا تو ضبط دامن میں آ سمایا۔

“تم کون ہو اور مجھ سے کیا چاہتی ہو؟” ہر ممکن کوشش کے باوجود میری آواز لرزی۔

“ہاہاہا! بلندیوں سے لپٹی آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں نے تمہیں موقع ہی کب دیا تھا کہ تم کچھ اور دیکھ پاتے۔ وہ بل کھا کر مجھ سے لپٹی اور ایک ادا سے کہتے ہوئے ہنس دی۔

میں نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں جھانکا تو میرے پہلو میں چھپا دل مچلا۔

“یہ ناز کسی اور کو دکھاؤ میں تمہاری پہنچ سے بہت دور ہوں۔” میں نے دل کو سنبھالنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا تھا۔

“تم جیسے بہت ملے سب یہی کہتے تھے۔” اس نے سرگوشی کی تو میں تلملا کر رہ گیا ۔

“میں سب نہیں ہوں۔” اس نے میری ٹھوڑی کو چھوا تو کی پوروں کی نرمی نے ایک پل کو مجھے بیخود کر دیا۔

“سب ایک سے ہوتے ہیں۔”وہ چہرہ میرے قریب لائی۔

“نہیں! دفع ہو جاؤ اپنی شکل گم کرو۔ میں یہ سب نہیں ہونے دوں گا۔” میں نے نفرت سے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔

“پچھتاؤ گے۔” اس نے اپنا ہاتھ سہلایا۔

“مجھے پیچھے مڑ دیکھنے کی عادت نہیں ہے۔” میں نے طنزیہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔

“ضرورت سب کروا لیتی ہے۔” وہ ہنسی تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

“غلط فہمی ہے تمہاری!” اس کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوئی۔

“اور تمہاری خوش فہمی ہے۔” میں نے رخ موڑا۔

“دیکھتے ہیں۔” اس نے میرے کندھے تھپتھپائے اور آنکھیں موند لیں۔

میں نے اسے اپنی موج میں ایک نظر دیکھا اور پھر سے بلندیوں سے محو گفتگو ہوا۔

میری نظریں یہاں سے وہاں بھٹکتی کبھی کبھار اس کے چہرے پر آ کر ٹک جاتیں۔ میں یک ٹک اسے دیکھے جاتا تو وہ جھٹ سے آنکھیں کھول دیتی اور میں دوبارہ نگاہیں پھیر لیتا۔

“آخر کب تک ؟” میرے قریب سرگوشی ابھرتی تو میں کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا۔

“کان بند کرنے سے کچھ نہیں ہو گا جب تک آواز بند نہیں ہو گی۔”

“تھک کر ہو جائے گی۔” میں دانستا چلاتا۔

“چیخنے سے آوازیں نہیں دبتیں۔” مہین سی آواز آتی اور میں سر تا پا جل کر رہ جاتا۔

“مجھے آوازوں کو دبانا بھی آتا ہے۔” میں کہتا۔

“آوازیں نہیں دبتیں۔” جواب ملتا۔

“اگر آواز پیدا ہی نہ ہو تو؟”میں غصے سے کہتا۔

“آواز نہیں رکتی۔” کہا جاتا۔

“زبان کٹ جائے تو؟” میں دل ہی دل میں ہنستا۔

تم نے دیکھا گونگے لفظ بھی ایک دن بول اٹھتے ہیں۔” میری سوچ کو جواب ملتا۔

“کتابی باتیں ہیں۔” میں الجھ کر کہتا۔

“کتابیں جھوٹ نہیں کہتیں۔” آواز آتی۔

“سچ اور جھوٹ سب چھپ جاتا ہے اگر چابی ہاتھ میں ہو۔” میں کچھ سوچ کر مسکراتا۔

“زنگ آلود چابی سے تالے نہیں کھلتے۔” لا پروائی سے کہا جاتا۔

“تمہارے پاس ہر بات کا جواب ہے لیکن میں تم سے نہیں ہاروں گا۔”میں پھر سے نیلے امبر پر محو پرواز پنچھیوں کے پروں کی رنگینیوں میں کھو جاتا۔

میری آنکھوں کو ایسے مناظر سے عشق تھا۔ مجھے رنگ بھاتے تھے، بلندیاں سرشار رکھتی تھیں اور پستیوں سے نفرت تھی شدید نفرت!

“کاش میرے خوابوں کو تعبیر مل جائے.” ایک دن خود سے باتیں کرتے ہوئے میں نے نگاہ نیچے کی۔

وہ اسی طرح آنکھیں موندے ہوئے تھی۔

“تم سو گئی ہو تھک گئی نا!” میں نے ہنستے ہوئے کہا تو اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔

“نہیں! تمہارا انتظار کر رہی تھی۔” دھیمی سی آواز میں کہا گیا۔

“بے سود ہے۔”

“بے فیض تو نہیں!” اطمینان سے کہا گیا۔

“تمہیں کیا ملے گا بھلا؟” میں ہنسا۔

“تعبیر!” وہ مسکرائی۔

“تمہاری تعبیر میرے خوابوں کی موت ہے۔” میں نے درشت لہجے میں کہا۔

“نہیں! یہ زندگی ہے۔” وہ میرے قریب ہوئی۔

“دور رہو!” میں نے اسے دھکا دیا۔

“میں دور رہی تو تمہارے خواب کیسے زندہ رہیں گے۔” اس نے بھید بھری لمبی آہ بھری۔

“لیکن تمہارا میرے قریب آنا ہی تو میرے خوابوں کی موت ہے۔” میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکنے سے گریز برتا۔

“ڈر گئے؟” وہ لہرا کر میرے پہلو سے لپٹی۔

“نہیں!” میرا لہجہ مدھم ہوا۔

“تو؟” اس نے میری پیشانی پر لب رکھے۔

“خوابوں کی تعبیر تمہاری موت سے ممکن ہے۔” میں نے اس کی گردن کی جانب ہاتھ بڑھائے۔

“مت کرو ایسا! تمہارے خواب بھی مر جائیں گے اور پھر۔۔۔” وہ خاموش ہوئی۔

“ایسا نہیں ہو گا۔” میں نے پوری قوت سے اس کا گلا دبایا۔

“مت مارو! تم ، تم۔۔۔ یہ تمہاری ، تمہارے خوابوں کی موت ہو گی۔” وہ درد سے بلبلاتے ہوئے چیخی۔

“میرے خوابوں کی زندگی مجھے سب سے بڑھ کر پیاری ہے۔” میں نے تڑپ کر کہا۔

“ہم مل کر زندہ کریں گے۔” اس نے کہا تو میرے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

“نہیں! مجھے خوف آتا ہے۔” مجھے اپنی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔

“ہم نے اس خوف کو ہی تو مارنا ہے تبھی خواب زندہ ہوں گے اور تعبیر سے گلے ملیں گے۔” وہ مجھ سے لپٹی۔

“تم چھوڑ گئی تو؟” میں نے مزاحمت کی۔

“میں نے تمہارے خوابوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ تمہارے دھتکارنے کے باوجود میں نے برسوں تمہاری راہ تکی ہے۔ تمہاری نگاہیں فلک پر آوارہ گردی کرتی تھیں اور میری نظریں تمہارے قدموں کے گرد طواف کرتی تھیں۔ میں نے یہ مقام بڑی مشکلوں سے پایا ہے اور اتنی تگ و دو کے بعد حاصل ہونے والی چیز کی بے قدری نہیں کی جاتی۔” اس نے میرے کندھے پر سر رکھا تو میں نے دونوں بازو وا کیے اور اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031