غزل ۔۔۔ شکیب جلالی

غزل

شکیب جلالی

وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا

مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے

وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

بنی نہیں جو کہیں پر کلی کی تربت تھی

سنا نہیں جو کسی نے ہوا کا نوحہ تھا

یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون

میں کیا کہوں میرے دل کا ورق تو سادہ تھا

وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول

وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا

ازل سے نام میرا پانیوں پہ لکھا تھا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2025
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
282930