![](https://penslipsmagazine.com/wp-content/uploads/2025/01/shkb.jpg)
غزل ۔۔۔ شکیب جلالی
غزل
شکیب جلالی
وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا
بنی نہیں جو کہیں پر کلی کی تربت تھی
سنا نہیں جو کسی نے ہوا کا نوحہ تھا
یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں میرے دل کا ورق تو سادہ تھا
وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا
میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا
ازل سے نام میرا پانیوں پہ لکھا تھا
Facebook Comments Box