کورا کینوس ۔۔۔ سدرہ منظور حسین

کورا کینوس

سدرہ منظور حسین

کینوس پر ٹکی اس کی گہری آنکھیں اور تیزی سے چلتے ہاتھ کام سے محبت  کا پتہ دے رہے تھے۔ اس کو یوں کام کرتا دیکھ کر رات کے پچھلے پہر اپنی موج میں بہتے دریا کا گمان ہوتا۔ جو بیک وقت دو مختلف کیفیات اپنے اندر سموئے بہتا چلا جاتا ہے۔ جیسے اس سے زیادہ  شانت کوئی نہ ہو مگر اس شانت بہتے دریا میں ایک چھوٹا سا کنکر یا پتھر ارتعاش پیدا کرنے کے لیے کافی ہو۔

 اور لمحہ موجود میں اس پتھر کا کام شہلا کی ہیل کی ٹک ٹک نے کیا تھا ۔فاخر کی آنکھوں کے دریا میں اٹھتی لہروں نے اس کے چہرے پر کئی مٹے مٹے نقوش چھوڑ دیے۔ جن کو گہری نظروں سے جانچتے ہوئے شہلا نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور کینوس کے بائیں جانب رکھے گلدان کی طرف مڑی۔اور ہاتھ میں پکڑے سرخ گلاب کو اس میں رکھ دیا۔ وہ بغیر گنے بتا سکتی تھی کہ گلدان میں رکھے گلابوں کی تعداد بیس ہو چکی ہے۔ 

شہلا نے گنتی کے اس ہند سے کو ذرا بلند آواز میں دہرایا ،جسے سن کر فاخر فوراً بولا۔

”بیس نہیں اکیس۔۔۔“

اس جواب نے شہلا کو ایک عجیب سی خوشی دی تھی۔ اس نے خوشی کے ان تاثرات کو چہرے پر ظاہر ہونے سے ہرگز نہیں روکا بلکہ ایک دفعہ پھر اپنی موج میں بہتے اس دریا میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی۔

”میں کاغذ سے کینوس پر اتری ان کہانیوں کی بات نہیں کر رہی جنہیں میں نے لکھا اور آپ نے پینٹ کیا ۔میں تو گلدان میں لگے ان مرجھائے انیس گلابوں کی بات کر رہی ہوں .جن کی تعداد ایک تازہ گلاب رکھنے کے بعد بیس ہو گئی ہے.

کیونکہ جب میں پہلی دفعہ آپ کے سٹوڈیو میں آئی تھی ۔تب صرف کہانی لے کر آئی تھی ۔پہلا گلاب میں اس وقت لائی تھی جب دوسری کہانی لائی تھی۔اس حساب سے آج گلابوں کی تعداد بیس  اور کہانیوں کی تعداد اکیس ہوگٸ ہے۔“

شہلا باتوں کے دوران ان مرجھائے گلابوں کو سپرے کرنے لگی۔ یہ جاننے کے باوجود کے یہ کبھی تازہ نہیں ہو سکتے جبکہ دوسری طرف فاخر کینوس کی بًیس تیار کرتے ہوئے بولا

”مطلب کہ آج تم اکیسویں کہانی لائی ہو ؟“

شہلا نے برس کی زپ کھولتے ہوئے سراثبات میں ہلایا اور پرس سے چند تہہ کئے کاغذ نکال کر فاخر کی جانب بڑھائے۔

”جس طرح آپ کہانیوں کی تعداد یاد رکھتے ہیں کاش کبھی گلابوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

شہلا کی بات ابھی جاری تھی کہ فاخر اس کی بات کو کاٹتے ہوئے جلدی سے بولا

”اس دفعہ کیا کہانی لکھی ہے۔۔۔۔۔۔ مطلب پلاٹ کیا ہے؟“

”کافی دلچسپ ہے۔۔۔۔۔“ شہلا نے خلا میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔

”آرٹسٹ کو تو اپنا مسودہ بھی دلچسپ لگتا ہے یہ تو پھر مکمل کہانی ہے۔۔۔۔۔ لاؤ میں پڑھوں“

فاخر نے ہاتھ شہلا کی جانب بڑھایا تو وہ صفحات درست کرتے ہوئے بولی

”میں پڑھ کر سناؤں؟“

”نہیں۔۔۔۔ میں خود پڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ خواہ کہانی ہو یا پینٹنگ اپنی نظروں سے پڑھ کر دل کی نگاہوں سے پرکھیں تو زیادہ اثر چھوڑتی ہیں“

”ہو سکتا ہے کہ سنانے والے کی زبان میں وہ تاثیر ہو ۔۔۔جو آپ کو اصل سے ملوا دے“

شہلا کی بات سن کر فاخر نے بھنیں اچکایئں  اور ہمممممم کہتے ہوئے سراثبات میں ہلایا ۔ شہلا کرسی اسی میز کے قریب کھینچ کر بیٹھ گئی ،جس پر گلدان رکھا تھا ۔وہ گلا کھنکھار کر بولی۔ 

”اس پلاٹ میں گلابوں کا کہیں ذکر نہیں ۔۔۔۔صرف کانٹوں کا ہے۔۔۔“

”شہلا پلاٹ۔۔۔۔۔۔“ فاخر الفاظ پر زور دیتے ہوئے بولا

”وہی تو بتا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ آج کی کہانی کا پلاٹ۔۔۔۔۔۔“ 

شہلا کندھوں کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے چہرے پرایسے تاثرات لائی جیسے کہہ رہی ہو کہ بہترین پینٹنگ بنانے کے لیے میری بات کو دھیان سے سنا جائے اور پینٹنگ میں جان ڈالنے کے لیے چہرے کو بغور دیکھا جائے۔

لہذا پلاٹ کو ڈسکس کرنے کے دوران گفتگو نے مکالمے کی شکل اختیار کر لی۔

”میں کہہ رہی تھی کہ کہانی کا آغاز باغ میں لگے پھولوں کی منظر نگاری سے نہیں ۔۔۔بلکہ کانٹوں سے ہوتا ہے۔ پھر تسلسل میں چلتی کہانی ایک ایسے شخص پر آکر رکتی ہے جو ہر کام میں اپنی مثال آپ ہے“

”پھر۔۔۔۔“فاخر کی بے تابی بڑی۔

”اس کی آنکھوں کی چمک ستاروں کو مات دیتی ہے۔ اس کی ذہانت بڑے بڑے تاجروں کے غرور کو مٹی میں ملا دیتی ہے ۔اس کی وجاہت  حسیناؤں کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔۔۔۔۔“

فاخر نے بات کاٹتے ہوئے نقطہ اعتراض اٹھایا۔

” تو پھر اس پھول جیسی زندگی میں کانٹوں کا ذکر کہاں سے آگیا“

فاخر کے اس سوال پر شہلا نے بے ساختہ قہقہہ  لگایا تو نا سمجھی کے انداز میں فاخر کی آنکھیں سکڑ گئیں۔

شہلا نے خود پر قابو پاتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا۔

”اچھا میں کہہ رہی تھی کہ کہانی کا مرکزی کردار شاندار شخصیت کا مالک ہے مگر ہر دفعہ جب وہ سو کر اٹھتا ہے تو اس کی آنکھوں کے ستارے بجھے ہوتے ہیں ۔اس کی شخصیت میں کوئی متاثر کن بات نہیں ہوتی۔“

”کیا مطلب۔۔۔۔۔۔ سمجھا نہیں۔۔۔“

”مطلب یہ کہ جب وہ سوتا ہے تو ساری دنیا سے آگے چلتا ہے لیکن جب جاگ جاتا ہے تو وہ دنیا کے قافلے کے پیچھے چلنے والا وہ مسافر ہے جو مالک کے ڈر سے وقت پر ورکشاپ پہنچنے کی کوشش میں تیز بھاگتا ہے“

”مطلب تم نے جو پہلے مرکزی کردار کی شخصیت بیان کی تھی وہ صرف اس کا خیال تھا ۔۔۔۔۔مطلب فنٹسی۔۔۔۔۔۔ بند آنکھوں کے پار اپنی مرضی سے دیکھے جانے والا خواب۔“

شہلا کا ہاں میں ہلتا سر دیکھ کر فاخر ایسے مسکرایا جیسے الجھی ڈور کا سرا تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔

”او ۔۔۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔ شہلا میں اس کہانی کو پینٹ کرنے کے لیے ابسٹریکٹ آرٹ کا استعمال کروں گا ۔۔۔۔جو سلجھانے کی کوشش میں مزید الجھ جاتا ہے۔ بالکل مرکزی کردار کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ایسے پینٹ کروں گا ۔۔۔۔کہ۔۔۔۔ کینوس پر بند آنکھوں والے شخص کی ایک بڑی سی تصویر اور اس  تصویر کے اندر بہت سارے چھوٹے چھوٹے کردار۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں۔۔۔۔ یہ دکھاؤں گا کہ وہ جس بستر پر سویا ہے اس کے اطراف میں کانٹے ہی کانٹے ہیں۔“

فاخر چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے  پرجوش انداز میں چہک رہا تھا جسے صرف ایک آرٹسٹ ہی محسوس کر سکتا ہے شہلا اس مسکراہٹ کو سمجھتے ہوئے اپنے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے بولی۔

”پینٹنگ میں روح ڈالنے کے لیے ایک بات کا خیال رکھیے گا“

”کیا۔۔۔۔“ مسکراہٹ ابھی تک فاخر کے چہرے کا  حصار کیے ہوئے تھی

”یہی کہ جب انسان کا دل زندگی کی دل خراش حقیقتوں سے فرار چاہتا ہے تو وہ یونہی کسی اندھیرے کمرے میں بلب بند کرنے کے بعد کمبل اوڑھ کر سونے کی خواہش رکھتا ہے۔ جہاں وہ اپنی مرضی کے خواب دیکھ سکے۔ جو آپ کے مطابق فینٹسی ہے“

”شہلا بات مکمل کرنے کے بعد اٹھی اور اس کے قدموں کا رخ بیرونی دروازے کی جانب مڑتا دیکھ کر فاخر بولا۔

”آج اتنی جلدی جا رہی ہو۔۔۔۔ پہلے تو ہمیشہ۔۔۔۔۔“

”دراصل میں اپنی کہانی کے مرکزی کردار کی طرح ۔۔۔۔۔بغیر نیند کے۔۔۔۔۔ اندھیرے میں چادر اوڑھ کر۔۔۔۔ آنکھیں بند کر کے لیٹنا چاہتی ہوں۔“

شہلا اپنی بات مکمل کر کے رکی نہیں بلکہ جلدی سے نکل گئی جبکہ فاخر کو حیرت ہوئی کہ وہ ہمیشہ کہانی کے ہر پہلو پر بحث کرنے کے بعد جاتی ہے مگر نہ جانے آج کیوں؟

اس ”کیوں“ کا جواب اسے شہلا کے آخری جملے پر غور کرنے سے مل گیا۔

 پینٹ کرتے ہوئے  لاشعور میں چھپی یہ بات شعور کی دہلیز پر دستک دیتی تو وہ چند لمحے کے لیے بے چین ہو کر رکتا ۔اور پھر گلدان میں لگے اس بیسویں پھول کو دیکھتا جو تازگی اور مرجھاہٹ کے درمیانی مرحلے میں تھا پھر اگلے ہی لمحے وہ خیالات کے تانے بانے ٹوٹنے کے ڈر سے اپنی توجہ پینٹنگ پر مرکوز کر لیتا ۔فخر کافی وقت لگانے کے بعد اپنی پینٹنگ مکمل کر چکا تھا ۔اب وہ اس انتظار میں تھا کہ شہلا آکر دیکھ لے۔

 مگر وہ اگلے دو ہفتے تک اس کا انتظار کرتا رہا جبکہ پہلے اگلے ہی دن پینٹنگ دیکھنے کا شوق اسے صبح سویرے ہی کھینچ لاتا تھا۔

وہ ہر زاویے سے پینٹنگ کو جانچتی  کہ آیا پینٹنگ کہانی کے عین مطابق ہے یا نہیں۔فاخر اب تک شہلا کی لکھی اکیس کہانیاں پینٹ کر چکا تھا ۔وہ ہر کہانی تقریبا ایک یا ڈیڑھ ہفتے بعد لے کر آجاتی تھی مگر اس دفعہ دو ہفتے سے زائد کا وقت ہو چکا تھا مگر وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ تقریبا دو ہفتوں کے بعد فخر کو الجھن سی ہونے لگی اور الجھن اتنی بڑی کہ وہ دن میں کئی بار گلدان میں لگے ان پھولوں کو گنتا۔

 ایک دن وہ یو نہی مرجھاٸی پتیوں کو دیکھنے کے بعد ان پر پانی شاور کر رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ اس دستک کو خوب پہچانتا تھا ۔اس لیے فوراً شاور میز کے نیچے پھینکنے کے بعد دروازہ کھولا ۔

اس دفعہ شہلا کے ہاتھ میں گلاب نہیں بلکہ وہ صفحات تھے جن پر وہ کہانیاں لکھ کر لاتی تھی۔

فاخر کی نگاہوں نے شہلا کے ہاتھوں سے چہروں تک کا سفر طے کیا۔

”کیوں بھئی۔۔۔۔۔ ایسی کون سی کہانی لکھ رہی تھی کہ مہینہ لگ گیا“

شہلا کہانی فاخر کو دیتے ہوئے بولی

”اس کی خاصیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس دفعہ میں اسے بیگ میں رکھ کر لانے کی بجائے ہاتھ میں پکڑ کرلائی ہوں“

”او۔۔۔ ہو۔۔۔ اچھا پڑھ کر سناؤ“

”آپ خود پڑھ لیں ۔۔۔۔شہلا نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔یاد ہے آخری دفعہ آپ نے کہا تھا کہ کہانی سننے کی بجائے خود پڑھنی چاہیے کیونکہ دل پر زیادہ اثر کرتی ہے“

فاخر  آنکھوں میں تجسس لیے  اٹھا اور شہلا کے ہاتھ سے کہانی لے کر پڑھنے لگا ۔پڑھتے پڑھتے اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہونے لگا۔آخری صفحے کی آخری لائن  پر پہنچ کر وہ سر نفی میں ہلانے لگا۔

”میں یہ کہانی پینٹ نہیں کروں گا۔“

اس کا وجود اندر اور باہر دھواں دھواں ہو رہا تھا۔

”جانتی ہوں کہ اس کہانی کو پینٹ کرنا مشکل ہے ۔اس مشکل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین صفحات کی اس کہانی کو لکھنے میں 30 دن لگ گۓ“

بات کرتے ہوئے جہاں کئی تاثرات شہلا کے چہرے کا حصار کیے ہوئے تھے وہیں فاخر کا چہرہ ہر تاثر سے عاری ہو گیا۔

”معذرت تم اپنی کہانی واپس لے جاؤ“

فاخر نے صفحات تقریبا پھینکتے ہوئے شہلا کے سامنے رکھے تو شہلا  کی آواز عمیق کھائی سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔

”پریشان مت ہوں ۔۔۔میں اپنی کہانی واپس لے کر جا رہی ہوں۔“

اتنا کہہ کر شہلا نے پرس کندھے پر رکھا اور  مڑ جھائے ہوئے بیس پھولوں  کا وہ گلدان اٹھا کر باہر نکل آئی۔ مگر کہانی والے صفحات وہیں رہ گئے۔جنہیں شہلا کے جانے کے بعد فاخر نے دوبارہ اٹھا لیا اور دروازے کی کنڈی چڑھانے کے بعد کتنی ہی دیر  انہیں دیکھتا رہا ۔پھر جلدی سے رنگ اٹھا کر کینوس بورڈ کی طرف بڑھا۔

پینٹنگ بناتے ہوئے اس نے سب سے پہلے اطراف میں ایک مجمع پینٹ کیا۔ ہر کردار کے دانت اس کے ہونٹوں سے جھانک رہے تھے بعض کی تو بتیسی نظر آرہی تھی ۔

ہر ایک کی انگشت  مرکزی کرداروں کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔جس کے دائیں طرف ایک حسین دوشیزہ دلہن کے روپ میں مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک ستاروں کو مات دے رہی تھی جبکہ دوسری طرف ایک مرد تھا۔ جس کی تصویر دیکھتے ہی فاخر کے خون کی گردش تیز ہو گئی۔ حالانکہ اس کے چہرے کی مشابہت ہوبہو اپنے چہرے سے ملتی معلوم ہورہی تھی ۔مگر اذیت اور دکھ کی اس کیفیت میں فاخر نے سیاہ رنگ اٹھا کر کینوس پر پھینک دیا ۔اس سیاہ رنگ نے اس مرد کے سفید بالوں کے ساتھ ساتھ پوری تصویر کو کالا کر دیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031