شہزادی ۔۔۔ شفا چودھری

شہزادی

شفا چودھری

واثق نے فائلوں کا پلندہ بغل میں دبایا اور باہر  نکل آیا۔ پرانے سے کوٹ کی جیب کو ٹٹول کر چابی نکالتے ہوئے  موٹر سائیکل کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں لیکن وہ اسے کہیں دکھائی نہ دی۔ دفتر کے لوگ چھٹی کے بعد تھکے ماندے اپنے گھروں کو جانے کو بے تاب دکھائی دے رہے تھے۔ دفتر کے احاطے میں کھڑی سواریاں نکال کر سب داخلی دروازے سے باری باری باہر نکل رہے تھے اور کچھ لوگ پیدل ہی باہر کی جانب رواں دواں تھے۔  احاطہ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اس کی موٹر سائیکل کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔   پرانی اور خستہ حال موٹر سائیکل کا کوئی کیا کرے گا؟ سوچتے ہوئے افسردہ سی مسکراہٹ لبوں پر پھیلی۔ صبح آتے ہوئے اس نے ٹائر میں ہوا بھروائی تھی تو ورکشاپ والے نے روز کی طرح اسے کئی باتیں سنا ڈالیں۔

“واثق صاحب! اس کھٹارا کی جان چھوڑ دیں اب!” شاگرد کو ہوا بھرنے کا اشارہ کر کے وہ اسے قیمتی مشوروں سے نوازنے لگا۔

“استاد جی! اس  کا اور میرا بڑا پرانا ساتھ ہے۔

میرے پاس ہنڈا سوک بھی آ گئی تو میں نہیں چھوڑنے والا اس کی جان!” اس نے محبت سے اس کی سیٹ پر ہاتھ پھیرا۔

“واہ! بھئی کمال کرتے ہیں۔ کسی دن راستے میں ہی دغا دے گئی تو کیا کریں گے؟ آپ کے گھر کا راستہ کافی ویران سا ہے۔”استاد رحیم بخش نے اس سے پیسے لے کر جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے صبح والی باتوں کو ذہن سے جھٹکا اور مرکزی دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔

“واثق صاحب سنیے!” کسی نے  پکارا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کا ماتحت  اللہ وسایا اس کی موٹر سائیکل پکڑے خراماں خراماں چلا آ رہا تھا۔

“یہ آپ کو کہاں سے ملی؟” وہ حیران ہوا۔

“صاحب! یہ دفتر کی عمارت کے عقب میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا تو فوراً پہچان گیا کہ یہ تو واثق صاحب کی موٹر سائیکل ہے۔” ہنسی دبانے کی کوشش کے باوجود اس لبوں کے گوشوں سے پھوٹتی مسکراہٹ اسے دکھی کر گئی۔

“بہت شکریہ! یہ نہ ملتی تو آج کسی ٹیکسی کو ہمارے گھر کے راستوں کی خاک پھانکنا پڑتی۔” اس نے مسکراہٹ کے پیچھے شرمندگی چھپاتے ہوئے موٹر سائیکل اس سے لے لی۔ اس کی پشت پر سوار ہوتے ہوئے اللہ وسایا کی آلٹو پر ایک نظر ڈالی جو اس نے چند دن  پہلے ہی لی تھی۔

“چل میری شہزادی! ” اس نے محبت پاش نگاہوں سے اپنی  موٹر سائیکل کو دیکھا اور گھر جانے والے راستے پر بھگانے لگا۔

“ارے بھئی آہستہ چلاؤ، یہ نہ ہو اس کے حصے بخرے ہو جائیں۔”  کسی نے قریب سے گزرتے ہوئے پھبتی کسی تو سبکی کا احساس اسے رفتار کم کرنے پر مجبور کر گیا۔

“نجانے کیوں سب میری شہزادی کے دشمن ہو گئے ہیں؟ آج تو کسی نے حد ہی کر دی بھلا ایسی شرارت کون کرے گا میرے ساتھ؟ شاید اپنی عمدہ سواری کے برابر میں میری خستہ حال سواری پسند نہیں آئی کسی کو!” سوچتے سوچتے راستہ کب کٹا کچھ خبر نہ ہوئی۔ دروازے کے قریب رک کر اس نے  گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا۔ غائب دماغی کی حالت میں تیسری بار گھنٹی بجانے پر بھی جب دروازہ نہ کھلا تو اسے کچھ یاد آیا۔

“ارے! میں بھی نا!” اس نے پتلون کی جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔

“گھر کی رونق تو گھر والی کے دم سے ہے۔”اس نے بلب جلاتے ہوئے سوچا۔ گھر پر چھایا سناٹا اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ کپڑے تبدیل کر کے اور کھانا کھا کر وہ بستر پر لیٹا تو سمعیہ کا خیال آتے ہی اس کا نمبر ملا لیا۔

“میں کل شام میں لینے آ جاؤں؟” حال احوال کے بعد اس نے مدعا بیان کیا۔

“آج ہی تو آئی ہوں اور آپ نے میری فرمائش پوری کر دی کیا؟”سمعیہ کی تیز آواز سپیکر سے ابھری۔

“وعدہ! میں جلد ہی تمہاری خواہش پوری کر دوں گا لیکن پلیز آ جاؤ! چند ہفتوں میں تم نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے اب تو تمہارے بنا ایک پل بھی رہنا ناممکن ہے۔” اس نے بے تابی سے کہا تو سمعیہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔

اگلے دن وہ ذرا دیر سے جاگا اور ناشتہ کر کے موٹر سائیکل کی صفائی کرنے لگا۔ کافی دیر کی محنت کے بعد موٹر سائیکل جگمگانے لگی تو اسے لگا تمام محنت وصول ہو گئی۔

نہا دھو کر سمعیہ کا استری کیا ہوا سفید سوٹ پہن کر اس نے موٹر سائیکل باہر نکالی۔

“چل میری کھٹارا” اس نے آج پہلی بار اپنی شہزادی کو اس نام سے پکارا تھا۔ آج سے تیرا اور میرا ساتھ ختم!” اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔

“ارے میاں! کب سے اسٹارٹ کیے کھڑے ہو نکال بھی چکو! بچہ اس کی بے ڈھنگی آواز سن کر جاگ گیا اور اب مسلسل روئے جا رہا ہے۔” چچا سعادت نے دروازے سے منہ نکال کر اسے  باتیں سنائیں تو کرب کچھ اور بڑھ گیا۔

“چچا! آپ کی شکایت دور کر دوں گا آج! بے فکر رہیے۔” اس نے آواز کی لرزش پر قابو پایا اور گلی سے نکل گیا۔

“لے استاد! تیری شکایت بھی دور کر رہا ہوں۔ شکایتوں کا بڑھتا بوجھ دل کے کو ڈبوئے جاتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ اس پھٹ پھٹی سے نجات حاصل کر کے پر سکون ہو جاؤں۔” اس کی پھیکی سی ہنسی کے سنگ استاد رحیم بخش کا بھونڈا قہقہہ بلند ہوا تو اندر کچھ ٹوٹ گیا۔

“کب تک سودا ہو جائے گا؟” اس نے تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔

“ابھی امید تو نہیں ہے لیکن ذرا سی مرمت کے بعد اس کا بھی گاہک مل جائے گا۔” استاد  نے ناقدانہ نظر موٹر سائیکل پر ڈالتے ہوئے کہا۔

“چلیں ٹھیک ہے۔ مجھے بتا دینا۔” اس نے آخری نگاہ  شہزادی پر ڈالی اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ورکشاپ سے نکل گیا۔

واثق شام سات بجے سمعیہ کو لے کر گھر پہنچا تو وہ شہ زادی کی غیر موجودگی پر بے انتہا خوش تھی۔ گھر کے سناٹے میں گونجتے اس کے نقرئی قہقہے بھی واثق کے اندر کی ویرانی کو کم نہ کر پا رہے تھے۔

“واپسی پر سیدھے گھر آئیے گا ہم اکھٹے چلیں گے۔” سمعیہ آج پہلے سے بھی زیادہ تروتازہ نظر آ رہی تھی لیکن رخساروں پر پھیلی شفق واثق کے دل کو گدگدا نہیں پا رہی تھی۔ وہ دفتر کے لیے نکلتے ہوئے ہمیشہ پلٹ کر سمعیہ کو الوداعی بوسہ دیتا تھا۔ پہلے دن سے اس کا یہی معمول تھا لیکن آج وہ یونہی باہر نکل آیا تھا۔

“کچھ بھول رہے ہیں جناب!” سمعیہ کی شرمائی سی آواز پر اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور بنا کچھ کہے باہر نکل آیا۔

“صاحب, شہزادی کے غم میں نڈھال  ہیں۔” سمعیہ بڑبرائی اور مسکراتے ہوئے دروازہ بند کر لیا۔

وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے سامنے پڑی فائل کو گھورے جا رہا تھا۔ کچھ لکھنے کو قلم اٹھاتا اور پھر واپس رکھ دیتا۔

اسی اضطرابی کیفیت میں وہ نجانے چائے کی کتنی پیالیاں خالی کر چکا تھا۔

“واثق صاحب! کیا سوچ رہے ہیں؟” اللہ وسایا نے اسے کنپٹیوں کو مسلتے دیکھا تو اپنی میز سے اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔ ایک نظر فائل کو دیکھا اور عجیب سے انداز میں مسکرا دیا۔

“ڈر رہے ہیں؟” اس کی معنی خیز نظریں واثق کو تپا گئیں۔

“موت سے خوف زدہ ہی ہوا جا سکتا ہے۔” لہجے کی درشتی اللہ وسایا کا حلق تک کڑوا کر گئی۔

“کیا مطلب؟” وہ جیسے کرسی سے اچھلا۔

“آپ نہیں سمجھیں گے۔” واثق نے فائل کو دراز میں رکھتے ہوئے کہا۔

“آپ اتنے بزدل لگتے تو نہیں۔” اللہ وسایا نے  چھوٹی چھوٹی  آنکھوں کو گھمایا۔

“ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بہادر حرام موت کو گلے نہیں لگاتے۔” واثق نے کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔

“اس طرح تو آپ سب کچھ کھو دیں گے۔” اس نے ایک اور وار کیا۔

“مشروط تعلقات پائیدار نہیں ہوتے۔” اس نے اطمینان سے جواب دیا تو اللہ وسایا پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔

” آپ کو ذہانت کا  درست استعمال کرنا نہیں آتا۔” اس نے مہنگے موبائل فون کی اسکرین کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے کھڑکی سے اپنی نئی نویلی آلٹو کو فخر سے دیکھا۔

“میں ٹشو پیپر بن کر  افسران بالا کا گند اپنے وجود سے صاف نہیں کر سکتا۔” اس نے میز سے استعمال شدہ ٹشو پیپر اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالا اور باہر نکل گیا۔

اس نے استاد رحیم بخش کی ورکشاپ سے شہزادی کو واپس لا کر اللہ وسایا کی آلٹو کے برابر کھڑا کرتے ہوئے دو تین بار ہارن بجایا اور کھلکھلا کر ہنس دیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031