نظم ۔۔۔ صہیب جمال
نظم
صہیب جمال
ایک عرصہ ہوا
میرے محلّے میں کوئل نہیں کوکی
صبح چڑیوں کی آواز بھی مدّھم ہے
اب گھونسلوں کے تنکے بھی
بکھرے نہیں ملتے
وہ پروں کا
ریشم سا پنکھ
دیکھے کافی وقت ہوا
گھر کے آنگن پختہ ہوگئے
باری باری سارے درخت ہی کٹ گئے
ہم جس پر چڑھتے اترتے بڑے ہوئے
وہ میٹھے امردو کا درخت
اب نہیں رہا
وہ خالہ کے گھر لگا آم کا درخت
اپنے ہرے پتّوں سمیت کٹ گیا ہے
میں نے اس کی شاخوں کو
دم توڑتے سڑک کے کنارے
اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے
کاٹنے والے نے گھسیٹ کے پھینکا تھا
اب میرے محلّے میں سایہ
صرف دیوار کا ہے
تیز ہوا میں پتّوں کا شور
نایاب ہوا
اب بے سُری کھڑکیوں کے پٹ
کھلتے بند ہوتے ہیں
ان گرے سوکھے پتّوں کی
آواز میں نئے پتّوں کے آنے کا
پیغام ہوتا تھا
وہ گلی میں لگے درخت بھی کٹ گئے
جس کے نیچے
وہ ٹھیلے والے کچھ دیر سستا لیتے تھے
ہم جلتی دوپہر میں
کالج سے آتے
کچھ دیر کھڑے ہوکر
چوری چوری کسی دروازے پر
خاموش نظر ڈال لیتے تھے
وہ شاخ بھی کٹ گئی
جس نے برسوں
ہمارا وزن اٹھایا تھا
ہمیں جھولا جھلایا تھا
بہت دنوں تک کٹ کے
دیوار کے سہارے پڑی رہی
اس پر گہرے
رسیوں کے نشان سے
میں نے آنسو گرتے دیکھے ہیں
چلو
ان پرندوں کو واپس لاتے ہیں
پھول والے
پھل والے
ہلکے سبز
گہرے سبز
پودے لگاتے ہیں
بعد ہمارے آنے والے اس پر
جھولے ڈالیں گے